Originally Posted by BunnY ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے : جون ایلیا ہم کو سودا تھا سر کے مان میں تھے پاؤں پھسلا تو آسمان میں تھے ہے ندامت لہو نہ رویا دل زخم دل کے کسی چٹان میں تھے میرے کتنے ہی نام اور ہمنام میرے اور میرے درمیان میں تھے میرا خود پر سے اِعتماد اُٹھا کتنے وعدے مری اُٹھان میں تھے تھے عجب دھیان کے در و دیوار گرتے گرتے بھی اپنے دھیان میں تھے واہ! اُن بستیوں کے سنّاٹے سب قصیدے ...
Originally Posted by BunnY ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں : جون ایلیا ہے فصیلیں اٹھا رہا مجھ میں جانے یہ کون آ رہا مجھ میں جون مجھ کو جلا وطن کر کے وہ مرے بِن بھلا رہا مجھ میں مجھ سے اُس کو رہی تلاشِ امید سو بہت دن چھپا رہا مجھ میں تھا قیامت سکوت کا آشوب حشر سا اک بپا رہا مجھ میں پسِ پردہ کوئی نہ تھا پھر بھی ایک پردہ کھِنچا رہا مجھ میں مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں اتنا ...
Originally Posted by BunnY وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں : جون ایلیا وقت درماں پذیر تھا ہی نہیں دل لگایا تھا، دل لگا ہی نہیں ترکِ الفت ہے کس قدر آسان آج تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے کہاں موجۂ صبا و شمیم جیسے تو موجۂ صبا ہی نہیں جس سے کوئی خطا ہوئی ہو کبھی ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں وہ بھی کتنا کٹھن رہا ہو گا جو کہ اچھا بھی تھا ، برا بھی نہیں کوئی دیکھے تو میرا حجرۂ ذات یاں سبھی کچھ وہ تھا جو تھا ہی نہیں ...
Originally Posted by BunnY یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے : جون ایلیا یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے جاں سے بھی گئے ، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے اب وصل ہو یا ہجر ، نہ اب تک بسر آیا اک لمحہ ، جسے لمحہ شماروں سے گلہ ہے اڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی صحراؤں پر شور دیاروں سے گلہ ہے بیکار کی اک کارگزاری کے حسابوں بیکار ہوں ...
Originally Posted by BunnY وفا کے خواب، محبت کا آسرا لے جا : احمد فراز وفا کے خواب، محبت کا آسرا لے جا اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا مقامِ سُود و زیاں آ گیا ہے پھر جاناں یہ زخم میرے سہی، تِیر تو اٹھا لے جا یہی ہے قسمتِ صحرا، یہی کرم تیرا کہ بوند بوند عطا کر، گھٹا گھٹا لے جا غرورِ دوست سے اتنا بھی دل شکستہ نہ ہو پھر اس کے سامنے دامانِ التجا لے جا ندامتیں ہوں تو سر بارِ دوش ہوتا ہے فراز جاں کے عوض آبرو بچا لے جا