ہم بصد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے : جون ایلیا

ہم بصد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے
پھر گنوائے بھی گئے اور بھلائے بھی گئے

ہم ترا ناز تھے ، پھر تیری خوشی کی خاطر
کر کے بے چارہ ترے سامنے لائے بھی گئے

کج ادائی سے سزا کج کُلہی کی پائی
میرِ Ù…Ø*فل تھے سو Ù…Ø*فل سے اٹھائے بھی گئے

کیا گلہ خون جو اب تھوک رہے ہیںجاناں
ہم ترے رنگ کے پرتَو سے سجائے بھی گئے

ہم سے روٹھا بھی گیا یم کو منایا بھی گیا
پھر سبھی نقش تعلق کے مٹائے بھی گئے

جمع و تفریق تھے ہم مکتبِ جسم و جاں کی
کہ بڑھائے بھی گئے اور گھٹائے بھی گئے

جون! دل ÙŽ شہرِ Ø*قیقت Ú©Ùˆ اجاڑا بھی گیا
اور پھر شہر توّہم کے بسائے بھی گئے