گیارہ سالہ بچی سے زیادتی کرکے اس کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا، اور ہوس کے پجاری ایک نہیں چار یا پانچ تھے شاید، اب اس بچی کا نچلا دھڑ کام نہیں کرتا، اس کا خون رسنا بند نہیں ہورہا اور تو اور ڈاکٹ...ر کا کہنا ہے کہ اگر یہی حالت رہی تو بچی آیندہ زندگی میں کبھی ماں نہیں بن سکے گی، ویسے بھی اپاہج تو وہ بے چاری پہلے ہی ہو چکی ہے
چھ یا سات سال کی بچی کو ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور ظاہر ہے وہ برداشت نہ کرپای اور راہی ملک عدم ہوگی ستم بالاے ستم یہ کہ اس کے چہرے پر سے موٹر سایکل گذاردی گی تاکہ اس کا چہرہ پہچانا نہ جاسکے،
تین چار سال کی بچی کو بھی ہوش کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گی اور اس وحشیانہ عمل کے نتیجے میں وہ موت سے گلے لگ گی اور اس ناپاک عمل کے بعد توہین یہ کہ اس کی لاش کو گٹر میں پھینک دیا گیا،
اٹھارہ سالہ لڑکی کی شادی ہوی ماں باپ سے جو کچھ بن پڑا اس موقعہ پر سب سسرال میں دے دیا ، ظاہر ہے غریب ماں باپ تھے چنانچہ اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی بیٹی کی سسرال والوں کو تھمانی ضروری تھی تبھی تو سروایو کرسکتی تھی، پھر بھی لڑکے والوں کے منہ پھولے ہوے کہ دیا کیا ہے؟؟ اور پھر اچانک ایک عدد چولہا پھٹا اور سوء اتفاق کہ صرف وہ لڑکی جل کر راکھ ہوگی کہیں ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی طلاق لے کر گھر آجاتی ہے اور بچوں کی زمہ داری بھی اس پر،
کبھی کبھی اسہی بیٹی کو بازار میں لا کر بٹھادیا جاتا ہے جہاں اس کی عزت چند روپوں میں براے فروخت ہوتی ہے ، روز اس کے معصوم بدن کو نچوایا جاتا ہے ہر روز ایک نیا گاہک آتا ہے اور اس کو کسی جانور کی طرح پرکھتا ہے اور اس کو عریاں کرکے اس کی بولی لگای جاتی ہے ، درج بالا واقعات سیکڑوں میں سے چند ایک ہیں ، بد قسمتی سے اس طرح کے ہزاروں واقعات رونما ہوتے ہیں، اور ایسے دلخراش واقعات ہیں جسے سن کر پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے، میں یہ سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ مجھ میں تو سننے کا حوصلہ نہیں ہے، جن ماووں بہنوں بیٹیوں پہ گذرتی ہے وہ تو زندہ لاش بن کر رہ جاتی ہوں گی، وہ تو روز جینے اور روز مرنے کے عمل سے گذرتی ہوں گی، اور جو ایسا گھناونا عمل کرتے ہیں وہ کیا ہیں؟ کس قسم کے بے ضمیر لوگ ہیں وہ کہ ان میں انسانیت نام کی کوی چیز نہیں ہے؟ ایک معصوم بچی کو ہوس کا نشانہ بناتے ہوے ان کے دل نہیں لرزتے؟ ان سخت دلوں میں ذرہ بھی انسانیت نام کی حساسیت کسی کونے میں سر نہیں اٹھاتی ؟ کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو کل رب کے حضور پیش ہونا ہے؟ اور تو اور ان نامرادوں کو
کو پیدا کرنے والی ذات کیوں نہیں یاد آتی ؟ کیوں وہ اس معصوم بچی کی آہ و بکا نہیں سنتے؟ کیوں اس عورت کو نچواتے ہوے اپنی ماں بہن یاد نہیں آتی ؟
یہ ہے ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت اہمیت وقعت اور حقیقت ، اور یہ ہے مملکت خداداد پاکستان کا مثالی اسلامی معاشرہ ارے یہ ہے اسلامی معاشرہ ؟ کیا لوگوں کا ضمیر مرگیا ہے کیا اپنی ہوس کا پورا کرنا ہی ان لوگوں کی زندگی کا نصب العین ہے؟ جب جانور شکار کرتا ہے تو کہاتا ہے پر جب اس کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ چھوڑ دیتا ہے پر انسان کی تو وہاں سے ہوس شروع ہوتی ہے ، مطلب انسانوں میں جانوروں کی سی خصلت پای جانے لگی ہے ، کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں بنت حوا مجبور اور لاچار ہے؟؟ ایک لمحے کے لیے اپنے ارد گرد نظر دوڑایے اور دیکھیے پاکستان کا اشرافیہ طبقہ پاکستان کے امراء وروساء ان کی خواتین کا لباس ان کے طور طریقے ، پھر مملکت خداداد کے چینلز اور ان کے پروگرامز، فیشن ویکس ۔۔۔۔۔ کسی بھی عام انسان کو فرسٹیڈ کرکے جانور بنانے کے لیے کافی ہیں ،جب بھی کوی چیز انسان کے اختیار میں نہیں ہوتی اسکی دسترس سے دور ہوتی ہے تو وہ اسے غلط طریقوں سے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، اس کے حصول کے لیے وہ جانور بننے سے بھی دریغ نہیں کرتا ، در اصل آج کی میڈیا کی عورت نے ہی اپنی عورت کمیونٹی کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے، جب ایک مرد ننگ دھڑنگ عورت کو دیکھتا ہے تو وہ یا تو اپنی بیوی کو ویسا بننے پر مجبور کرتا ہے اور خلاف ورزی پر اسے طلاق دے دیتا ہے ، اور یا پھر وہ بھی اسی ماحول کا ہولیتا ہے، اہم ترین نکتہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات انسان حرام حلال میں فرق نہیں کرتا اور اپنے بچوں کو حرام یا سودی آمدنی میں سے کھلاتا پلاتا ہے اور ظاہر ہے لقمہ حرام اپنی فاسد تاثیر رکھتا ہے اسکا اثر انسان کے بدن کے ہر ہر جز پر ہوتا ہے،الغرض حرام لقمہ حرام کاموں کا سبب بنتا ہے، نیزحرام صرف یہ نہیں کہ آپ شرعی اعتبار سے ممنوعہ چیزوں کے استعمال سے رک جایں اور شراب و سور سے دور رہیں ، حرام تو وہ بھی ہے جو آپ جھوٹ بول کر یا غلط طریقے سے یا کم تول کر ناحق پیسے کماتے ہیں،الغرض رشوت سود خوری اور حرام خوری وہ بنیادی محرکات ہیں جس سے معاشرہ میں فساد اور گڑبڑ کا آغاز ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے۔
ایک نوالہ حرام جب انسان کے جسم میں شامل ہوجاتاہے تو اس کے جسم میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوجاتا ہے شیطان پھر غالب ہونے لگتا ہے ،بدی انسان کی شخصیت پر چھاجاتی ہے نیکی کا کوی گذر نہیں ہوتا اورپھر گویا کہ انسان کی آنکھ میں سور کا بال آجاتا ہے ، وہ حلال و حرام کی تمیز کھوبیٹھتاہے اور بے حس ہوجاتا ہے نتیجتا اس کے دل کی حسیاتی موت واقع ہوجاتی ہے