ہر خراشِ نفس ، لکھے جاؤں : جون ایلیا

ہر خراشِ نفس ، لکھے جاؤں
بس لکھے جاؤں ، بس لکھے جاؤں

ہجر کی تیرگی میں روک کے سانس
روشنی کے برس لکھے جاؤں

اُن بسی بستیوں کا سارا لکھا
ڈھول کے پیش و نظر پس لکھے جاؤں

مجھ ہوس ناک سے ہے شرط کہ میں
بے Ø*سی Ú©ÛŒ ہوس Ù„Ú©Ú¾Û’ جاؤں

ہے جہاں تک خیال کی پرواز
میں وہاں تک قفس لکھے جاؤں

ہیں خس و خارِ دید ، رنگ کے رنگ
رنگ پر خارو خس لکھے جاؤں