اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا : ابن انشاء

اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں، یاد رہے گا

وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا

ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول بھی جائیں
وہ شمع فسردہ کا دھواں یاد رہے گا

کچھ میر کے ابیات تھے کچھ فیض کے نسخے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا

جاں بخش سی اس برگ گل تر کی تراوت
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو، یاد رہے گا، ہاں ہمیں یاد رہے گا