ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں : اØ*مد ندیم قاسمی

ہم اندھیروں سے بچ کر چلتے ہیں
اور اندھیروں میں جا نکلتے ہیں

ایک کو دوسرے کا ہوش نہیں
یوں تو ہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں

وہ کڑا موڑ ہے ہمیں درپیش
راستے ہر طرف نکلتے ہیں

کتنے عیاش لوگ ہیں ہم بھی
دن میں سو منزلیں بدلتے ہیں

وہ ہوئیں بارشیں، کہ کھیتوں میں
کرب اگتے ہیں ، درد پلتے ہیں

پتھروں کا غرور ختم ہوا
اب اِنساں شرر اگلتے ہیں

ٹھوکریں کھا رہے ہیں صدیوں سے
گو دلوں میں چراغ جلتے ہیں ۔۔۔