ہم اپنی قوّتِ تخلیق Ú©Ùˆ اکسانے آئے ہیں : اØ*مد ندیم قاسمی

ہم اپنی قوّتِ تخلیق کو اکسانے آئے ہیں
ضمیرِ ارتقاء میں بجلیاں دوڑانے آئے ہیں

جو گردش میں رہیں گے اور کبھی خالی نہیں ہوں گے
ہم ایسے جام بزمِ دہر میں چھلکانے آئے ہیں

اجل کی رہزنی سے ہر طرف طاری ہیں سنّاٹے
سرودِ زندگی کو نیند سے چونکانے آئے ہیں

ہوائیں تیز ہیں جل جل کے بجھتے ہیں چراغ اپنے
ارادے تند ہیں ہم شمعِ نو بھڑکانے آئے ہیں

وہ دیوانے جو ہمّت ہار کے بیٹھے تھے صدیوں سے
اب اپنی منجمد تقدیر سے ٹکرانے آئے ہیں

عروسِ زندگانی کا سوئمبر رچنے والا ہے
نئے ارجن مشیت کی کماں لچکانے آئے ہیں