ہجومِ فکر Ùˆ نظر سے دماغ جلتے ہیں : اØ*مد ندیم قاسمی

ہجومِ فکر و نظر سے دماغ جلتے ہیں
وہ تیرگی ہے کہ ہر سو چراغ جلتے ہیں

کچھ ایسا تند ہوا جا رہا ہے بادۂ زیست
کہ ہونٹ کانپتے ہیں اور ایاغ جلتے ہیں

چمک رہے ہیں شگوفے، دہک رہے ہیں گلاب
وفورِ موسمِ گل ہے کہ باغ جلتے ہیں

نہیں قریب تو کچھ دور بھی نہیں وہ دور
شفق کے روپ میں جس کے سراغ جلتے ہیں

ترے نصیب میں راتیں، مرے نصیب میں دن
ترے چراغ، مرے دل کے داغ جلتے ہیں