میں کب سے گوش بر آواز ہوں، پکارو بھی : اØ*مد ندیم قاسمی

میں کب سے گوش بر آواز ہوں، پکارو بھی
زمین پر یہ ستارے کبھی اتارو بھی

مری غیور امنگو، شباب فانی ہے
غرورِ عشق کا دیرینہ کھیل ہارو بھی

سفینہ Ù…Ø*وِ سفر ہو تو نا رسیدہ نہیں
قدم قدم پہ کنارے ہیں، تم سدھارو بھی

مرے خطوط پہ جمنے Ù„Ú¯ÛŒ ہے گردِ Ø*یات
اداس نقش گرو، اب مجھے نکھارو بھی

بھٹک رہا ہے دھندلکوں میں کاروانِ خیال
بس اب خدا کے لیے کاکلیں سنوارو بھی

مری تلاش کی معراج ہو تمھی لیکن
نقاب اُٹھاؤ، نشانِ سفر ابھارو بھی

یہ کائنات ازل سے سپردِ انساں ہے
مگر ندیم! تم اس بوجھ کو سہارو بھی