میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا : اØ*مد ندیم قاسمی

میں دوستوں سے تھکا، دشمنوں میں جا بیٹھا
دُکھی تھے وہ بھی، سو میں اپنے دکھ بھلا بیٹھا

سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لئے، میرے دِل میں آ بیٹھا

بس ایک بار غرورِ اَنا کو ٹھیس لگی
میں تیرے ہجر میں دستِ دُعا اٹھا بیٹھا

خُدا گواہ کہ لُٹ جاؤں گا، اگر میں کبھی
تجھے گنوا کے ترا درد بھی گنوا بیٹھا

ترا خیال جب آیا تو یوں ہوا Ù…Ø*سوس
قفس سے اُڑ کے پرندہ شجر پہ جا بیٹھا

سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا

کٹے گی کیسی اس انجامِ نا شناس کی رات
ہوا کے شوق میں جو شمع ہی بُجھا بیٹھا

مجھے خُدا Ú©ÛŒ خُدائی میں یہ ہوا Ù…Ø*سوس
کہ جیسے عرش پہ ہو کوئی دوسرا بیٹھا