1. #1
    Super Moderator
    Apr 2014
    395

    new اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے : امجد اسلام امجد

    اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے : امجد اسلام امجد
    اب کے سفر ہی اور تھا، اور ہی کچھ سراب تھے
    دشتِ طلب میں جا بجا، سنگِ گرانِ خواب تھے
    Ø*شر Ú©Û’ دن کا غلغلہ، شہر Ú©Û’ بام Ùˆ دَر میں تھا
    نگلے ہوئے سوال تھے، اُگلے ہوئے جواب تھے
    اب کے برس بہار کی، رُت بھی تھی اِنتظار کی
    لہجوں میں سیلِ درد تھا، آنکھوں میں اضطراب تھے
    خوابوں کے چاند ڈھل گئے تاروں کے دم نکل گئے
    پھولوں کے ہاتھ جل گئے، کیسے یہ آفتاب تھے!
    سیل کی رہگزر ہوئے، ہونٹ نہ پھر بھی تر ہوئے
    کیسی عجیب پیاس تھی، کیسے عجب سØ*اب تھے!
    عمر اسی تضاد میں، رزقِ غبار ہو گئی
    جسم تھا اور عذاب تھے، آنکھیں تھیں اور خواب تھے
    صبØ* ہوئی تو شہر Ú©Û’ØŒ شور میں یوں بِکھر گئے
    جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
    آنکھوں میں خون بھر گئے، رستوں میں ہی بِکھر گئے
    آنے سے قبل مر گئے، ایسے بھی انقلاب تھے
    ساتھ وہ ایک رات کا، چشم زدن کی بات تھا
    پھر نہ وہ التفات تھا، پھر نہ وہ اجتناب تھے


    ربط کی بات اور ہے، ضبط کی بات اور ہے
    یہ جو فشارِ خاک ہے، اِس میں کبھی گلاب تھے


    اَبر برس کے کھُل گئے، جی کے غبار دھُل گئے
    آنکھ میں رُو نما ہوئے، شہر جو زیرِ آب تھے


    درد کی رہگزار میں، چلتے تو کِس خمار میں
    چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

  2. #2
    Oct 2015
    لاہور، پاکستان
    72
    عمدہ اور خوب صورت انتخاب
    شیئر کرنے کا شکریہ

 

 

Thread Information

Users Browsing this Thread

There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

Bookmarks

  •