پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے : عباس تابش
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے
ایک Ù…Ø*بّت اور وہ بھی ناکام Ù…Ø*بّت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
دل پر پانی پینے آتی ہیں اُمیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے
مجھ نادان سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے
پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھُپایا جا سکتا ہے