تیرے گُمنام اگر نام کمانے لگ جائیں : عباس تابش
تیرے گُمنام اگر نام کمانے لگ جائیں
شرف و شیوہ و تسلیم ٹھکانے لگ جائیں
جس طرØ* نور سے پیدا ہے جہانِ اشیاء
اک نظر ڈال کے ہم بھی نظر آنے لگ جائیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں
دیکھ اے Ø*سنِ فراواں یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں
جس کے ہونے سے ہے مشروط ہمارا ہونا
اپنے ہونے کا نہ اØ*ساس دلانے Ù„Ú¯ جائیں
تو Ù…Ø*بّت Ú©ÛŒ غرض لمØ*ہ موجود سے رکھ
ترے ذمّے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں
یہ Ù…Ø*بّت نہ کہیں ردِ عمل بن جائے
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں
کارِ دُنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے
دن نکلتے ہی میری خیر منانے لگ جائیں
پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابش
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں