ملے تو کیسے ملے منزل خزینۂ خواب : افتØ*ار عارف

ملے تو کیسے ملے منزل خزینۂ خواب
کہاں دمشق مقدر کہاں مدینۂ خواب
سیاہ خانۂ خوف و ہراس میں اک شخص
سُنا رہا ہے مسلسل Ø*دیث زینۂ خواب
یقیں کا ورد و وظیفہ نہ اسم اعظم عشق
تو پھر یہ کیسے کھلے گا طلسم سینۂ خواب
جہاں جہاں کی بھی مٹی ہمیں ہمیشہ پسند آئی
وہاں وہاں پہ امانت کیا دفینۂ خواب
خروشِ گریۂ بے اختیار ایسا تھا
ترخ کے ٹُوٹ گیا رات آبگینۂ خواب
شکستِ خواب گزشتہ پہ نوØ*ہ خوانی ہوئی
پھر اس Ú©Û’ بعد سجی Ù…Ø*فلِ شبینۂ خواب
میسر آئی ہے توفیق شعر خوش ہو لیں
نہ پھر یہ سیل رواں ہے نہ یہ سفینۂ خواب
انیس و آتش و اقبال سے مسلسل ہے
یہ سادہ کاری، یہ صناعی نگینۂ خواب