سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں : افتØ*ار عارف

سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں
سمندورں Ú©Ùˆ بھی Ø*یرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مد د کے لیئے پکارا نہیں
جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں
ہم اہلِ دل ہیں Ù…Ø*بت Ú©ÛŒ نسبتوں Ú©Û’ امیں
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں