نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

نہ منزلوں کو نہ ہم رہ گزر کو دیکھتے ہیں

عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں


نہ پوچھ جب وہ گزرتا ہے بے نیازی سے
تو کس ملال سے ہم نامہ بر کو دیکھتے ہیں


تیرے جمال سے ہٹ کر بھی ایک دنیا ہے
یہ سیر چشم مگر کب ادھر کو دیکھتے ہیں


عجب فسونِ خریدار کا اثر ہے کہ ہم
اسی کی آنکھ سے اپنے ہنر کو دیکھتے ہیں


کوئی مکاں کوئی زنداں سمجھ کے رہتا ہے
طلسم خانۂ دیوار و در کو دیکھتے ہیں


فراز در خورِ سجدہ ہر آستانہ نہیں
ہم اپنے دل Ú©Û’ Ø*والے سے در Ú©Ùˆ دیکھتے ہیں


وہ بے خبر میری آنکھوں کا صبر بھی دیکھیں
جو طنز سے میرے دامانِ تر کو دیکھتے ہیں


یہ جاں کنی کی گھڑی کیا ٹھہر گئی ہے کہ ہم
کبھی قضا کو کبھی چارہ گر کو دیکھتے ہیں


ہماری دربدری کا یہ ماجرا ہے کہ ہم
مسافروں Ú©ÛŒ طرØ* اپنے گھر Ú©Ùˆ دیکھتے ہیں


فراز ہم سے سخن دوست، فال کے لئے بھی
کلامِ غالب آشفتہ سر کو دیکھتے ہیں