نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چُھپا

نہ پوچھ اس کی جو اپنے اندر چُھپا

غنیمت کہ میں اپنے باہر چُھپا
مجھے یاں کسی پہ بھروسہ نہیں
میں اپنی نگاہوں سے چھپ کر چُھپا
پہنچ مخبروں کی سخن تک کہاں
سو میں اپنے ہونٹوں میں اکثر چُھپا
مری سن! نہ رکھ اپنے پہلو میں دل
اسے تو کسی اور کے گھر چُھپا
یہاں تیرے اندر نہیں میری خیر
مری جاں مجھے میرے اندر چُھپا
خیالوں کی آمد میں یہ آرجار
ہے پیروں کی یلغار تو سر چُھپا