ناروا ہے سخن شکایت کا

ناروا ہے سخن شکایت کا

وہ نہیں تھا میری طبیعت کا
دشت میں شہر ہو گئے آباد
اب زمانہ نہیں ہے ÙˆØ*شت کا
وقت ہے اور کوئی کام نہیں
بس مزہ لے رہا ہوں فرصت کا
بس اگر تذکرہ کروں تو کروں
کس کی زلفوں کا کس کی قامت کا
مر گئے خواب سب کی آنکھوں کے
ہر طرف ہے گلہ Ø*قیقت کا
اب مجھے دھیان ہی نہیں آتا
اپنے ہونے کا ØŒ اپنی Ø*الت کا
تجھ کو پا کر زیاں ہوا ہم کو
تو نہیں تھا ہماری قیمت کا
صبØ* سے شام تک میری دُنیا
ایک منظر ہے اس کی رخصت کا
کیا بتاؤں کہ زندگی کیا تھی
خواب تھا جاگنے Ú©ÛŒ Ø*الت کا
کہتے ہیں انتہائے عشق جسے
اک فقط کھیل ہے مروت کا
Ø¢ گئی درمیان روØ* Ú©ÛŒ بات
ذکر تھا جسم کی ضرورت کا
زندگی کی غزل تمام ہوئی
قافیہ رہ گیا Ù…Ø*بت کا