وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں

وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں

وہ مجھ سے روٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے Ø*ریمِ ہوس میں دولتِ Ø*سن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امّید وار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
نگاہِ شوق سرِ بزم بے Ø*جاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترکِ Ù…Ø*بت ہے کس لیے آخر
سکونِ قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں