کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو

کسی سے عہد و پیماں کر نہ رہیو

تُو اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
سفر کرنا ہے آخر دو پلک بیچ
سفر لمبا ہے بے بستر نہ رہیو
ہر اک Ø*الت Ú©Û’ بیری ہیں یہ لمØ*Û’
کسی غم کے بھروسے پر نہ رہیو
ہمارا عمر بھر کا ساتھ ٹھیرا
سو میرے ساتھ تُو دن بھر نہ رہیو
بہت دشوار ہو جائے گا جینا
یہاں تُو ذات کے اندر نہ رہیو
سویرے ہی سے گھر آ جائیو آج
ہے روزِ واقعہ باہر نہ رہیو
کہیں چھپ جاؤ تہ خانوں میں جا کر
شبِ فتنہ ہے اپنے گھر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو