ہر چند کہ ہمارے گھر میں غربت کا خاصا آنا جانا تھا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” پھر بھی ابا Ù†Û’ دل پر جبر کرکے مجھے ایف اے کرا ہی دیا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” میری خواہش تھی کہ میں ایم اے کرتا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” لیکن ابا ایم اے Ú©ÛŒ بجائے ’’ایویں‘‘ میں زیادہ خوش تھے۔ میں Ù†Û’ کئی دفعہ ابا سے کہا کہ مجھے کوئی نوکری کرلینے دیں Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” لیکن ابا کا تو پلان ہی Ú©Ú†Ú¾ اور تھا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” ہر دفعہ جیسے ہی میں نوکری کا ذکر چھیڑتا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” ابا کا منہ عالم لوہار جیسا بن جاتا اور آنکھیں Ø*سن جہانگیر جیسی Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” پھر وہ مسلسل ساڑھے تین منٹ مجھے پرانے ماڈل Ú©ÛŒ نئی گالیاں نکالتے اور بعد میں بڑی عزت سے سمجھاتے کہ Û”Û”Û”Û”Û”Û” ’’منØ*وس! یہ نوکری وغیرہ Ú©ÛŒ سوچے گا تو نہ خود کھا سکے گا نہ ہمیں کھلائے گا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” آگے Ú©ÛŒ سوچ Û”Û”Û”Û”Û”Û” آگے Ú©ÛŒ Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” میں تیری شادی کسی امیر کبیر Ù„Ú‘Ú©ÛŒ سے کرنا چاہتا ہوں تاکہ تیرے سسرال والے تجھے کاروبار بھی سیٹ کرکے دیں Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” اس طرØ* ان Ú©ÛŒ بیٹی اور تیرے والدین دونوں سکھی رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’سبØ*ان اللہ‘‘ Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” ابا کا پلان سن کر میرے گھٹنوں میں ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے بچا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” ’’اے ابا! Û”Û”Û”Û”Û” اتنی امیر Ù„Ú‘Ú©ÛŒ آخر مجھے ملے Ú¯ÛŒ کیسے ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں Ù†Û’ طلعت Ø*سین Ú©Û’ انداز میں بڑا سیریس سوال کیا۔
’’ابے بھری پڑی ہے دنیا ایسی لڑکیوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بس تو دیکھتا جا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا دل کہتا ہے قسمت ہمارے دروازے پر دستک دینے ہی والی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اچانک دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔۔!!
میں Ù†Û’ اٹھ کر دیکھا تو ہمیشہ Ú©ÛŒ طرØ* ابا کا کہا سچ پایا Û”Û”Û”Û”Û”Û”Û” رشتے کرانے والی ’’ماسی قسمت‘‘ اندر داخل ہورہی تھی۔
(Ú¯Ù„ نوخیز اختر Ú©Û’ مزاØ*یہ ناول ’’ٹائیں ٹائیں فش‘‘ سے اقتباس)