Ù…Ø*بت وسوسوں کا آئینہ ہوتی ہے، جس زاویے سے بھی اس کا عکس دیکھیں کوئی نیا وسوسہ، Ú©Ú†Ú¾ الگ ہی خدشہ سر اٹھاتا ہے۔ ایک پل پہلے مل کر جانے والا Ù…Ø*بوب بھی موڑ مڑتے ہوئے آخری بار پلٹ کر نہ دیکھے تو دیوانوں Ú©ÛŒ دنیا اتھل پتھل ہونے لگتی ہے کہ جانے کیا ہوگا؟ کہیں وہ روٹھ تو نہیں گیا، کوئی بات بری تو نہیں Ù„Ú¯ گئی اسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اور پھر اگلی ملاقات تک سارا چین Ùˆ سکون غارت ہوجاتا ہے۔ Ú©Ú†Ú¾ ایسا ہی Ø*ال میرا بھی تھا لیکن میں کتنا بے بس تھا کہ اپنی مرضی سے قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے اس انسانی جسم Ú©ÛŒ لاچاری پر بے Ø*د غصہ آتا تھا۔ ہمارے جسم Ú©Ùˆ ہماری سوچ جیسی پرواز کیوں نہیں عطا Ú©ÛŒ گئی، ایسا ہوتا تو میں اڑ کر اس بے پروا Ú©Û’ در جا پہنچتا کہ اس تغافل Ú©ÛŒ وجہ تو بتادے۔
(ہاشم ندیم کے ناول ’’عبداللہ‘‘ کے باب ’’من کی دیوار‘‘ سے اقتباس)