1. #1
    Jun 2015
    35

    شرک Ú©Ùˆ سمجھیے-11: کرامت Ú©ÛŒ Ø*قیقت

    یہ اس مضمون Ú©ÛŒ آخری قسط ہے۔ اس Ú©Û’ جملہ Ø*قوق عام ہیں یعنی ہر شخص اس کو، تجارتی یا غیرتجارتی مقصد Ú©Û’ لیے، شائع کرسکتا ہے۔
    ---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    کرامت Ú©ÛŒ Ø*قیقت
    شرک Ú©ÛŒ ساری بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ Ú©Û’ نیک بندوں کےپاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے Ú©Û’ اختیارات ہیں۔ اس عقیدے Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ بنیاد بزرگان دین Ú©ÛŒ کرامتیں بنتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ کرامت Ú©ÛŒ Ø*قیقت Ú©Ùˆ سمجھ لیا جائے۔
    اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس Ú©Û’ تØ*ت نظام کائنات Ú†Ù„ رہا ہے۔مثلا Ø¢Ú¯ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون Ú©Ùˆ جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون Ú©Ùˆ توڑ دیتا ہے۔ اس Ú©Ùˆ خرق عادت کہتے ہیں جس Ú©Û’ ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔یہ خرق عادت اگر انبیا Ú©Û’ لیے ہوئی تو اس Ú©Ùˆ معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی Ú©Û’ واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔ اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں Ú©Ùˆ ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہوجائیں اور اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔
    معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔قرآن مجید اور اØ*ادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ Ú©Û’ معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ قرآن پاک میں Ø*ضرت عیسی علیہ السلام Ú©Û’ معجزات کا ذکر اس طرØ* آتا ہے:
    انی اخلق Ù„Ú©Ù… من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ Ùˆ ابریٔ الاکمہ Ùˆ الابرص Ùˆ اØ*ÛŒ الموتٰی باذن اللٰہ() (آل عمران -49)
    ترجمہ: میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں Ú©ÛŒ مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے پیدائشی اندھے اور برص Ú©Û’ مریض Ú©Ùˆ اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے مردوں Ú©Ùˆ زندہ کر دیتا ہوں۔
    اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:
    کلما دخل علیھا زکریا المØ*راب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انٰی Ù„Ú© ھٰذا قالت Ú¾Ùˆ من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآئ بغیر Ø*ساب
    (آل عمران- 37 )
    ترجمہ: جب بھی زکریا(علیہ السلام) Ø*ضرت مریم Ú©Û’ Ø*جرے میں آتے تو ان Ú©Û’ پاس کھانے Ú©ÛŒ چیزیں پاتے،انہوں Ù†Û’ پوچھا،اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ØŸ انہوں Ù†Û’ کہا اللہ Ú©Û’ پاس سے،بے Ø´Ú© اللہ تعالیٰ جس Ú©Ùˆ چاہے بے Ø*ساب روزی دیتا ہے۔
    کرامت Ú©Ùˆ Ø*Ù‚ ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی Ú©Û’ واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نبی یا ولی Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:
    و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآئ فتاتیھم باٰیۃ() (الانعام آیت- 35)
    ترجمہ: اور (اے Ø*بیب ï·º ) اگر ان Ú©ÛŒ روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس Ú†Ù„Û’ تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان Ú©Û’ پاس کوئی معجزہ Ù„Û’ آؤ۔
    نبی کا معجزہ ہو یا ولی Ú©ÛŒ کرامت اصل Ø*Ú©Ù… تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔کام کرنے والی ذات وہی ہے۔ اگر یہ اہم اصول واضØ* نہ ہو تو نبی Ú©Û’ معجزے یا ولی Ú©ÛŒ کرامت Ú©Ùˆ ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔جن لوگوں Ù†Û’ Ø*ضرت عیسی علیہ السلام Ú©Û’ معجزات Ú©Ùˆ ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ Ø*الانکہ وہ تو اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے تھا۔فرمایا Ùˆ ابریٔ الاکمہ Ùˆ الابرص Ùˆ اØ*ÛŒ الموتٰی باذن اللٰہ (میں اللہ تعالیٰ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے مادرزاد اندھے اور برص Ú©Û’ مریض Ú©Ùˆ ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں)Û”
    سورۃ الانفال میں جہاں رسول اکرم ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریو ں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
    و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی() (الانفال-17 )
    ترجمہ: اور (اے Ù…Ø*مد ï·º ) جس وقت تم Ù†Û’ کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم Ù†Û’ نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ Ù†Û’ پھینکی تھیں۔
    یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔
    اسی طرØ* اولیا کرام Ú©ÛŒ جو کرامات صØ*ÛŒØ* طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس Ú©Û’ ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے۔
    Ø*ضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوØ* الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
    ’’جب تم اپنی مرضی مولا Ú©ÛŒ مرضی میں مٹا دو Ú¯Û’ تو پھر تم بشری اوصاف سے پاک ہوجاؤ Ú¯Û’ تمہارا باطن ارادہ الہی Ú©Û’ سوا کسی چیز Ú©Ùˆ قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (Ú©Ù† فیکون ،تصرفات) اور خرق عادت (کرامات) Ú©ÛŒ نسبت تمہاری طرف کردی جائے گی۔ تو وہ فعل Ùˆ تصرف ظاہر عقل ÙˆØ*Ú©Ù… Ú©Û’ اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا Ø*الانکہ وہ تکوین اور خرق عادت Ø*قیقت میں اللہ Ú©Û’ فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘
    معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصلی کام دلوں Ú©Ùˆ تبدیل کرنا ہے۔معجزوںیا کرامتوں Ú©ÛŒ Ø*یثیت بس ایک ذریعہ Ú©ÛŒ ہے کہ لوگوں Ú©Û’ دلوں Ú©Ùˆ اللہ Ú©ÛŒ طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات Ú©ÛŒ تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ Ø*ضرات اللہ Ú©ÛŒ بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں Ú©Û’ پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک Ùˆ مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان Ú©Ùˆ توØ*ید Ú©ÛŒ Ø*دوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف Ù…Ø*ض اللہ رب العزت ہی Ú©Ùˆ Ø*اصل ہے۔

    یہ اس مضمون Ú©ÛŒ آخری قسط ہے۔ اس Ú©Û’ جملہ Ø*قوق عام ہیں یعنی ہر شخص اس کو، تجارتی یا غیرتجارتی مقصد Ú©Û’ لیے، شائع کرسکتا ہے۔ Ù¾ÛŒ ÚˆÛŒ ایف فارمیٹ میں بھی موجود ہے۔
    ---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
    کرامت Ú©ÛŒ Ø*قیقت
    شرک Ú©ÛŒ ساری بنیاد صرف یہ عقیدہ ہے کہ اللہ Ú©Û’ نیک بندوں کےپاس بھی خدائی معاملات میں تصرف کرنے Ú©Û’ اختیارات ہیں۔ اس عقیدے Ú©ÛŒ Ú©ÛŒ بنیاد بزرگان دین Ú©ÛŒ کرامتیں بنتی ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ کرامت Ú©ÛŒ Ø*قیقت Ú©Ùˆ سمجھ لیا جائے۔
    اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس کائنات میں ایک قانون جاری فرما رکھا ہے جسے قانون فطرت کہا جاتا ہے جس Ú©Û’ تØ*ت نظام کائنات Ú†Ù„ رہا ہے۔مثلا Ø¢Ú¯ جلاتی ہے، تلوار کاٹتی ہے وغیرہ۔لیکن اللہ تعالیٰ اس قانون Ú©Ùˆ جاری فرما کر اس کا پابند نہیں ہو گیا ہے۔بلکہ وہ جب چاہتا ہے اس قانون Ú©Ùˆ توڑ دیتا ہے۔ اس Ú©Ùˆ خرق عادت کہتے ہیں جس Ú©Û’ ذریعے وہ اپنی قدرت کا اظہار فرماتا ہے۔یہ خرق عادت اگر انبیا Ú©Û’ لیے ہوئی تو اس Ú©Ùˆ معجزہ کہتے ہیں اور اگر کسی ولی Ú©Û’ واسطے سے ہوئی تو یہ کرامت کہلاتی ہے۔ اس کا مقصد ان برگزیدہ بندوں Ú©Ùˆ ایسی نشانی دینا ہے جس سے دوسرے انسان بے بس ہوجائیں اور اس کا مقابلہ نہ کرسکیں۔
    معجزہ اور کرامت سے انکار کرنے والا بے دین ہے۔قرآن مجید اور اØ*ادیث مبارکہ میں انبیاء علیہم السلام اور اولیا اللہ Ú©Û’ معجزات اور کرامات کا کئی مقامات پر ذکر ہے۔ قرآن پاک میں Ø*ضرت عیسی علیہ السلام Ú©Û’ معجزات کا ذکر اس طرØ* آتا ہے:
    انی اخلق Ù„Ú©Ù… من الطین کھیئۃ الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللٰہ Ùˆ ابریٔ الاکمہ Ùˆ الابرص Ùˆ اØ*ÛŒ الموتٰی باذن اللٰہ() (آل عمران -49)
    ترجمہ: میں تمہارے لیے مٹی سے پرندوں Ú©ÛŒ مانند صورت بنا دیتا ہوں پھر اس میں دم کر دیتا ہوں تو وہ اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے پرندہ بن جاتا ہے اور میں اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے پیدائشی اندھے اور برص Ú©Û’ مریض Ú©Ùˆ اچھا کر دیتا ہوں اور میں اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے مردوں Ú©Ùˆ زندہ کر دیتا ہوں۔
    اولیائے کرام کی کرامت کا ذکر یوں آتا ہے:
    کلما دخل علیھا زکریا المØ*راب وجد عندھا رزقا قال یٰمریم انٰی Ù„Ú© ھٰذا قالت Ú¾Ùˆ من عند اللٰہ()ان اللٰہ یرزق من یشآئ بغیر Ø*ساب
    (آل عمران- 37 )
    ترجمہ: جب بھی زکریا(علیہ السلام) Ø*ضرت مریم Ú©Û’ Ø*جرے میں آتے تو ان Ú©Û’ پاس کھانے Ú©ÛŒ چیزیں پاتے،انہوں Ù†Û’ پوچھا،اے مریم ! یہ تیرے پاس کہاں سے آئیں ØŸ انہوں Ù†Û’ کہا اللہ Ú©Û’ پاس سے،بے Ø´Ú© اللہ تعالیٰ جس Ú©Ùˆ چاہے بے Ø*ساب روزی دیتا ہے۔
    کرامت Ú©Ùˆ Ø*Ù‚ ماننا ضروری ہے لیکن اس سلسلے میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ معجزہ اور کرامت براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جو نبی یا ولی Ú©Û’ واسطے سے ظاہر ہوتا ہے۔ نبی یا ولی Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ وجود میں لانے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اپنی مرضی سے تو کوئی نبی بھی معجزہ پیش نہیں کرسکتا۔ قرآن پاک میں صاف لکھا ہے:
    و ان کان کبر علیک اعراضھم فان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض او سلما فی السمآئ فتاتیھم باٰیۃ() (الانعام آیت- 35)
    ترجمہ: اور (اے Ø*بیب ï·º ) اگر ان Ú©ÛŒ روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر بس Ú†Ù„Û’ تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان Ú©Û’ پاس کوئی معجزہ Ù„Û’ آؤ۔
    نبی کا معجزہ ہو یا ولی Ú©ÛŒ کرامت اصل Ø*Ú©Ù… تو اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔کام کرنے والی ذات وہی ہے۔ اگر یہ اہم اصول واضØ* نہ ہو تو نبی Ú©Û’ معجزے یا ولی Ú©ÛŒ کرامت Ú©Ùˆ ان کا ذاتی فعل سمجھ کر انسان ٹھوکر کھا جاتا ہے۔جن لوگوں Ù†Û’ Ø*ضرت عیسی علیہ السلام Ú©Û’ معجزات Ú©Ùˆ ان کا ذاتی فعل سمجھا وہ شرک میں مبتلا ہوگئے۔ Ø*الانکہ وہ تو اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے تھا۔فرمایا Ùˆ ابریٔ الاکمہ Ùˆ الابرص Ùˆ اØ*ÛŒ الموتٰی باذن اللٰہ (میں اللہ تعالیٰ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے مادرزاد اندھے اور برص Ú©Û’ مریض Ú©Ùˆ ٹھیک کرتا ہوں اور مردے میں جان ڈال دیتا ہوں)Û”
    سورۃ الانفال میں جہاں رسول اکرم ﷺ کے اس معجزے کا ذکر ہے جس میں آپ ﷺ نے دشمن کے لشکر کی طرف ایک مٹھی کنکریو ں کی پھینکی اور اللہ کی قدرت سے وہ سارے لشکر کی آنکھوں میں جا لگیں اس کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
    و ما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمٰی() (الانفال-17 )
    ترجمہ: اور (اے Ù…Ø*مد ï·º ) جس وقت تم Ù†Û’ کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم Ù†Û’ نہیں پھینکی تھیں بلکہ اللہ Ù†Û’ پھینکی تھیں۔
    یعنی فعل تو اللہ تعالیٰ کا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر ظاہر فرما دیا۔
    اسی طرØ* اولیا کرام Ú©ÛŒ جو کرامات صØ*ÛŒØ* طریقے سے ثابت ہوں وہ بھی اللہ تعالیٰ کا فعل ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عزت بخشتے ہیں اس Ú©Û’ ہاتھ پر کرامت ظاہر ہوجاتی ہے۔
    Ø*ضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فتوØ* الغیب وعظ نمبر 6 میں فرماتے ہیں:
    ’’جب تم اپنی مرضی مولا Ú©ÛŒ مرضی میں مٹا دو Ú¯Û’ تو پھر تم بشری اوصاف سے پاک ہوجاؤ Ú¯Û’ تمہارا باطن ارادہ الہی Ú©Û’ سوا کسی چیز Ú©Ùˆ قبول نہیں کرے گا اس وقت تکوین (Ú©Ù† فیکون ،تصرفات) اور خرق عادت (کرامات) Ú©ÛŒ نسبت تمہاری طرف کردی جائے گی۔ تو وہ فعل Ùˆ تصرف ظاہر عقل ÙˆØ*Ú©Ù… Ú©Û’ اعتبار سے تم سے دکھائی دے گا Ø*الانکہ وہ تکوین اور خرق عادت Ø*قیقت میں اللہ Ú©Û’ فعل اور ارادے ہوں گے۔‘‘
    معجزے یا کرامات بذات خود مقصود نہیں ہیں۔انبیا اور اولیا کا اصلی کام مادی چیزوں پر تصرفات کرنا نہیں ہے۔ ان کا اصلی کام دلوں Ú©Ùˆ تبدیل کرنا ہے۔معجزوںیا کرامتوں Ú©ÛŒ Ø*یثیت بس ایک ذریعہ Ú©ÛŒ ہے کہ لوگوں Ú©Û’ دلوں Ú©Ùˆ اللہ Ú©ÛŒ طرف موڑنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت اس بات Ú©ÛŒ تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ Ø*ضرات اللہ Ú©ÛŒ بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ ان مقدس ہستیوں Ú©Û’ پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے یا وہ مالک Ùˆ مختار ہیں ایک ایسا خیال ہے جو انسان Ú©Ùˆ توØ*ید Ú©ÛŒ Ø*دوں سے نکال دیتا ہے کیونکہ اس کائنات میں تصرف Ù…Ø*ض اللہ رب العزت ہی Ú©Ùˆ Ø*اصل ہے۔ -
    Last edited by MY$T3R!OUZ; 02-29-2016 at 07:09 PM.

  2. #2
    Feb 2015
    karachi
    256
    جزاک اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

Thread Information

Users Browsing this Thread

There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

Bookmarks

  •