تمہید
سنن ترمذی، کتاب العلم میں Ø*ضرت عرباض بن ساریہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ پہلے ہمیں نماز پڑھائی اور پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر بیٹھ گئے اور ہمیں نہایت مؤثر انداز میں نصیØ*ت فرمائی کہ ہماری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور دلوں میں خوف پیدا ہوگیا۔ ایک شخص Ù†Û’ عرض کیا:
Ø*دیث 1
يا رسول الله كان هذه موعظة مودع فماذا تعهد الينا
ترجمہ: یارسول اللہﷺ یہ تو گویا کسی رخصت کرنے والے Ú©ÛŒ سی نصیØ*ت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں
’’گویا یہ تو کسی رخصت کرنے والے Ú©ÛŒ سی نصیØ*ت ہے‘‘، مطلب یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ سفر آخرت پر روانہ ہونے سے قریب کا واقعہہے۔ نصیØ*ت Ú©ÛŒ درخواست پر رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اپنے صØ*ابہؓکو چند وصیتیں فرمائیں۔ ان میں جو آخری وصیت یہ تھی:
فانه من يعش منكم بعدي فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتي Ùˆ سنة الخلفاء المهديين الراشدين تمسكوا بها Ùˆ عضوا عليها بالنواجذ واياكم Ùˆ Ù…Ø*دثات الامور فان كل Ù…Ø*دثة بدعة وكل بدعة ضلالة
ترجمہ: میرے بعد جو تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا (Ø*اشیہ: [1]) (تو تم میں سے جو یہ زمانہ پائیں) تو تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین Ú©ÛŒ سنتوں Ú©Ùˆ مضبوطی سے Ù¾Ú©Ú‘Û’ رہنا اور دانتوں سے مضبوط Ù¾Ú©Ú‘ لینا اور دین میں نئی نئی باتوں (بدعات) سے بچنا اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے
یہ گویا رسول اللہ ﷺ کی اپنے امتیوں کے لیے وصیت تھی جس میں یہ خبر دی گئی کہ آپ ﷺ کے بعد اختلافات سامنے آئیں گے اور ایسے موقع پر بچنے کی ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے رسول اللہ ﷺ کی سنت اور آپ کے خلفائے راشدینؓ کی سنت۔ اس وصیت میں امت کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ بدعتوں سے بچنا ہے کیوں کہ بدعت گمراہی ہے۔ سنن نسائی کی روایت میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں:
کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار (كتاب صلاة العيدين)
ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی (کا انجام) آگ ہے
Ø*ضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ï·º اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے:
Ø*دیث 2
اما بعد فان خير الØ*ديث كتاب الله وخير الهدي هدي Ù…Ø*مد وشر الامور Ù…Ø*دثاتها وكل بدعة ضلالة (مسلم، کتاب الجمعۃ)
ترجمہ: (Ø*مد Ùˆ صلوۃ Ú©Û’ بعد سمجھو) کہ بہترین کلام اللہ Ú©ÛŒ کتاب ہے اور بہترین طریقہ Ù…Ø*مد ï·º کا طریقہ ہے اور بدترین ایجاد بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے
ان تمام روایات سے بدعت کی سنگینی کا پتہ چلتا ہے جس کے بعد ہر مسلمان کو چاہیے کہ بدعت سے بچے تاکہ اپنی عاقبت سنوار سکے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
آیت 1
الذين ضل سعيهم في الØ*ياة الدنيا وهم ÙŠØ*سبون انهم ÙŠØ*سنون صنعا (الکہف: 104)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش دنیا ہی میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں
یہ بدعت کا انجام ہے کہ انسان اپنے خود تراشیدہ اعمال Ú©Ùˆ نیکی سمجھ کر خوش ہوتا ہے Ø*الانکہ اللہ تعالیٰ اور اس Ú©Û’ رسول ï·º Ú©Û’ نزدیک ان Ú©Û’ اعمال کا نہ کوئی وزن ہے نہ ثواب بلکہ الٹا گناہ ہے۔
بدعت کس کو کہتے ہیں؟ شریعت نے اس سے کیوں منع فرمایا؟ اس مضمون میں اسی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس موضوع کو پورے طور پر سمجھنے کے لیے چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں۔ جو ترتیب وار پیش خدمت ہیں۔
پہلی بات: اعمال کی قسمیں
ایک مسلمان جو اعمال کرتا ہے ان کی دو بنیادی قسمیں ہیں:
1) اعمال دنیا
2) اعمال طاعت
اعمال دنیا
یہ وہ کام ہیں جو انسان دنیا Ú©Û’ لیے کرتا ہے جیسے تجارت زراعت ملازمت وغیرہ۔ ان اعمال Ú©Û’ کرنے میں اس Ú©Û’ پیش نظر دنیا کا فائدہ ہوتا ہے یہ وہ اعمال ہیں جن Ú©ÛŒ Ù…Ø*نت یہاں اور صلہ بھی یہاں ملتا ہے (Ø*اشیہ:[2] )Û” ان کاموں Ú©Û’ متعلق رسول اللہ ï·º کا ارشاد گرامی ہے:
Ø*دیث 3
انتم اعلم بامور دنیاکم (صØ*ÛŒØ* مسلم، کتاب الفضائل)
ترجمہ: تم اپنے دنیا کے امور بہتر جانتے ہو
اعمال طاعت یا اعمال آخرت
یہ وہ کام ہیں جو انسان آخرت میں اجر Ú©ÛŒ امید پر کرتا ہے۔ آخرت میں اجر Ú©ÛŒ امید پر کئے گئے اعمال انسان دو طریقوں سے کرتا ہے۔ ایک وہ ہیں جو رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ سنت اور صØ*ابہ کرامؓ Ú©Û’ طریقے Ú©Û’ مطابق کیے جاتے ہیں۔ ان Ú©Ùˆ اعمال طاعات کہہ سکتے ہیں۔
دوسرے وہ اعمال ہیں جو کیے تو آخرت میں اجر Ú©ÛŒ امید پر ہیں لیکن یہ وہ اعمال ہیں جو لوگ خود بنا لیتے ہیں۔ ان اعمال کا کوئی ثبوت رسول اللہ ï·º اور صØ*ابہ کرامؓ Ú©Û’ یہاں سے نہیں ملتا۔ ان Ú©Ùˆ بدعات کہا جاتا ہے۔
اعمال گویاتین قسم کےہوئے:
1) ایک وہ جن Ú©ÛŒ Ù…Ø*نت یہاں اور صلہ بھی یہیں متوقع ہوتا ہے۔ یہ اعمال دنیا ہیں۔
2) دوسرے وہ جن Ú©ÛŒ Ù…Ø*نت یہاں (دنیا میں) اور جزا Ùˆ صلہ وہاں (آخرت) ملے گا۔ یہ اعمال طاعات ہیں جو سنت Ú©Û’ مطابق کیے جاتے ہیں۔
3) تیسرے وہ اعمال ہیں جن Ú©ÛŒ Ù…Ø*نت یہاں مگر ان Ú©ÛŒ جزا نہ اس دنیا میں نہ آخرت میں۔ یہ بدعات ہیں۔ یہاں اس لیے نہیں کہ وہ کیے ہی آخرت Ú©Û’ لیے گئے تھے اور آخرت میں اس لیے نہیں کہ وہ اعمال سنت Ú©Û’ مطابق نہیں کیے جاتے۔ ان اعمال Ú©ÛŒ مثال وہی ہے جو سورۃ کہف Ú©ÛŒ مذکورہ آیت میں بیان Ú©ÛŒ گئی ہے۔

(جاری ہے)​
[1]:اس میں یہ نکتہ بھی ہے کہ بدعات اختلافات کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کو سامنے رکھ کر انسان بہت آسانی سے اہلسنت و الجماعت اور اہل بدعت میں فرق جان سکتا ہے۔ وہ جن کی ’’دینداری ‘‘اختلافات کو پھیلانے سے چلتی ہو ان سے بچنے ہی میں عافیت ہے۔
[2]:گو ان اعمال میں شریعت کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنے سے ان پر اجر ملتا ہے ۔مثلا: سچا تاجر آخرت میں انبیا کے ساتھ ہوگا۔