دوسری بات: بدعت کو سمجھنے کا ایک قاعدہ
دوسری بات جو اس موضوع کو سمجھنے میں اہم ہے وہ یہ کہ ایسے تمام کام جن کا سبب آپ ﷺ کے زمانے میں موجود تھا اور اس پر کوئی مانع (رکاوٹ) بھی نہ تھا اور اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے نہ کیے تو ایسا کرنا بدعت ہے۔ البتہ اگر کسی کام کا آپ ﷺ کے زمانے میں سبب موجود تھا لیکن کسی عارضی وجہ سے عمل میں نہیں آیا اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد وہ سبب جاتا رہا تو ایسے کام بھی دائرہ بدعت سے خارج ہیں۔
مثال 1:
سیدنا عمرؓ کا تراویØ* Ú©ÛŒ نماز Ú©Ùˆ جاری کرنا: سیدنا عمرؓ کا تراویØ* Ú©ÛŒ نماز Ú©Ùˆ جاری کرنا بھی اسی نوعیت کا کام تھا۔ تراویØ* آپ ï·º Ù†Û’ اپنی Ø*یات مبارک میں باجماعت چند روز Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ لیکن فرض ہوجانے Ú©ÛŒ اندیشے Ú©ÛŒ وجہ سے جماعت سے ترک فرما دی۔ چنانچہ صØ*ÛŒØ* بخاری، کتاب الجمعہ میں آتا ہے:
Ø*دیث
لكني خشيت ان تفرض عليكم فتعجزوا عنها
ترجمہ: لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے
یعنی تراویØ* Ú©ÛŒ اصل موجود تھی، سیدنا عمرؓ Ù†Û’ صرف اس Ú©Ùˆ منظم طور پر نافذ کردیا۔
مثال 2:
قرآن پاک کا ایک مصØ*ف میں جمع کرنا: قرآن پاک Ú©Ùˆ ایک کتاب Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں جمع کرنا آپ ï·º Ú©Û’ وصال Ú©Û’ بعد ہوا۔ لیکن اس کام Ú©ÛŒ اصل شریعت میں موجود تھی اس لیے کہ رسول اللہ ï·º قرآن کریم Ú©Ùˆ Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ کا Ø*Ú©Ù… فرماتے تھے۔ آپ ï·º Ú©Û’ وصال Ú©Û’ وقت وہ متفرق طور تØ*ریری Ø´Ú©Ù„ میں موجود تھا۔ صØ*ابہ کرامؓ Ù†Û’ Ø*فاظت Ú©ÛŒ غرض سے اکٹھا کردیا۔
مثال 3:
Ø*دیث شریف کا لکھنا: اس Ú©ÛŒ اصل بھی موجود تھی۔ اس لیے کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ بعض صØ*ابہ کرامؓ Ú©Ùˆ Ø*دیث Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©ÛŒ اجازت عطا فرمائی تھی۔ بعد Ú©Û’ مسلمانوں Ù†Û’ اØ*ادیث Ú©Ùˆ ضائع ہونے سے بچانے Ú©Û’ لیے ان Ú©Ùˆ Ù„Ú©Ú¾ لیا۔
تیسری بات: بدعت - چند اصولی باتیں
بدعت Ú©ÛŒ تعریف سے پہلے یہ چند اصولی باتیں بھی جاننا ضروری ہے۔ ان باتوں Ú©Ùˆ جان لینے Ú©Û’ بعد بدعت Ú©Û’ مسئلے میں صØ*ÛŒØ* بات سمجھ میں آجاتی ہے۔
1) بدعت سے مراد بدعت شرعی ہے نہ کہ بدعت کا لفظی مفہوم۔
1) ‏پچھلی قسط میں Ø*دیث عرباض میں رسول اللہ ï·ºÙ†Û’ اپنے اسوہ کا تقابل بدعت سے کیا ہے یعنی بدعت کا لفظ سنت Ú©Û’ مقابل ہے۔ جو چیز سنت ہے وہ بدعت نہیں ہوسکتی اور جو چیز بدعت ہو وہ سنت نہیں ہوسکتی۔ سنت Ú©Û’ دائرے میں ہر وہ چیز شامل ہے جن پر ان تین زمانوں میں جن Ú©Û’ خیر ہونے Ú©Û’ بارے میں رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اطلاع دی بغیر کسی روک ٹوک Ú©Û’ مسلمانوں کا عمل درآمد رہا۔
2) بدعت کا موضوع تعبدی امور (عبادت والے کام) ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو نیکی سمجھ کر کیے جاتے ہیں اور انسان Ú©Ùˆ اس پر اجر Ú©ÛŒ امید ہوتی ہے۔ ان Ú©Û’ مختلف درجات ہیں جیسے فرض، واجب، سنت اور مستØ*ب وغیرہ۔ اعمال Ú©Û’ یہ سب درجے شریعت مقرر کرتی ہے۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام میں سب عبادات توقیفی (ت Ùˆ Ù‚ ÛŒ ف ÛŒ) ہیں یعنی ان کا Ø*Ú©Ù… اللہ تعالیٰ اور اس Ú©Û’ رسول ï·º سے ملتا ہے۔ اپنی طرف سے کوئی عمل گھڑنا اور نیکی سمجھ کر کرنا بدعت ہے۔ مثال Ú©Û’ طور پر اللہ تعالیٰ Ú©Û’ تمام نام، جن کا پڑھنا نیکی ہے، توقیفی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اور اس Ú©Û’ رسول ï·º سے ثابت ہیں۔ لیکن کوئی شخص اپنی طرف سے اللہ کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس Ú©Ùˆ یوں بھی کہتے ہیں کہ تعبدی امور میں نقل موجود ہونا ضروری ہے۔ تعبدی امور طاعات اور بدعات میں تقسیم ہیں۔
3) عادات (دنیاوی امور) بدعت کا موضوع نہیں ہیں۔ عادات Ùˆ معاملات (دنیاوی امور) انسان خود ترتیب دیتے ہیں۔ یہ انسانوں Ú©Û’ اپنے ماØ*ول اور تجربات سے بنتے ہیں۔ اسی لیے ہر ملک Ùˆ علاقے میں یہ مختلف ہوتے ہیں(Ø*اشیہ: [1])Û” دنیاوی امور میں نظر ضرورت پر ہوتی ہے۔ یہ امور جائز اور ناجائز میں تقسیم ہیں۔ ان میں اصل اباØ*ت ہے، یعنی جائز ہیں جب تک شریعت سے منع ثابت نہ ہوجائے۔ رسول اللہ ï·º کا ارشاد گرامی ہے:
Ø*دیث
انتم اعلم بامور دنیاکم
ترجمہ: تم اپنے دنیا کے امور بہتر جانتے ہو
4) بدعت کا تعلق مسائل سے ہے ذرائع سے نہیں۔ اصل چیز مسئلہ ہے نہ کہ ذریعہ۔ وقت Ùˆ Ø*الات Ú©Û’ تØ*ت ذرائع بدل سکتے ہیں، مثلا:
*صاØ*ب استطاعت پر Ø*ج فرض ہے۔ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ دور میں اونٹوں Ú©Û’ ذریعے مکہ مکرمہ پہنچا جاتا تھا۔ ہمارے دور میں مکہ مکرمہ پہنچنے Ú©Û’ دیگر ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ اصل چیز مکہ مکرمہ پہنچنا ہے نہ کہ ذریعہ۔
*قرآن کریم صØ*ÛŒØ* پڑھنا دین کا مسئلہ ہے۔ اس مقصد Ú©Ùˆ Ø*اصل کرنے Ú©Û’ لیے قرآن Ú©Û’ الفاظ پر اعراب (زیر، زبر پیش وغیرہ) لگانا مسائل میں سے نہیں ہے ذرائع میں سے ہے۔
* اسی طرØ* دین Ú©ÛŒ Ø*فاظت کا مسئلہ ہے۔ اس مقصد Ú©Ùˆ Ø*اصل کرنے Ú©Û’ لیے دینی مدارس کا قیام ذرائع میں سے ہے مسائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
مسائل اور ذرائع Ú©Û’ اس فرق Ú©Ùˆ سامنے رکھیں تو یہ بات بھی واضØ* ہوجاتی ہے کہ:
* مسجدوں میں گھڑی پنکھے وغیرہ لگانا ایک ضرورت ہے دین نہیں۔ یہ ذرائع ہیں مسائل نہیں۔
* وقت کے قومی ملی اور دینی تقاضوں کے لیے مجالس و اجتماعات بھی ذرائع ہیں خود دین نہیں۔
* دنیاوی کام اور نئی نئی ایجادات سب اس سے نکل گئیں اس لیے کہ یہ بھی دین نہیں۔
اوپر بیان کیے گئے پانچ امور کو سامنے رکھ کر کسی چیز کے شرعی بدعت ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور جو چیز شرعی بدعت ثابت ہوگئی اس سے بچنا ضروری ہے۔ کیونکہ وہ دین میں اضافہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
Ø*دیث
من اØ*دث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صØ*ÛŒØ* البخاری، كتاب الصلØ*)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تو وہ رد ہے
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من اØ*دث فی دیننا ما لیس منہ فھو رد
ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو وہ مردود ہوگی

(جاری ہے)​
-----------------------
[1]: بدعات کا بھی یہی معاملہ ہوتا ہے۔ ہر علاقے اور ہر ملک میں بدعات مختلف ہوتی ہیں۔ سنت البتہ ہر جگہ ایک ہی رنگ لیے ہوئے ہوتی ہے۔