بدعت کی تعریف
لغت Ú©Û’ اعتبار سے لفظ بدعت، بدع سے نکلا ہے جس Ú©Û’ معنی نئی چیز ایجاد کرنے Ú©Û’ ہیں خواہ وہ عبادت سے متعلق ہو یا عادات (دنیاوی امور) سے۔ لیکن شریعت Ú©ÛŒ اصطلاØ* میں بدعت کا معنی ہے دین میں کوئی نیا طریقہ نکالنا ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ، صØ*ابہ کرام، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ Ú©Û’ زمانے میں اس کا سبب موجود ہونے Ú©Û’ باوجود نہ قولا ثابت ہو نہ فعلا نہ صراØ*تا اور نہ اشارتا اور اسے دین بنایا جائے اور نیکی Ùˆ ثواب سمجھ کر کیا جائے۔ یہی وہ بدعت ہے جسکو بدعت ضلالہ، بدعت قبیØ*ہ یا بدعت سئیہ کہا جاتا ہے۔ اس Ú©ÛŒ پھر دو قسمیں ہیں جو Ø¢Ú¯Û’ بیان ہوتی ہیں۔
رسول اللہ ﷺ فرما گئے ہیں:
من اØ*دث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صØ*ÛŒØ* البخاری، كتاب الصلØ*)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
البتہ جو چیز رسول اللہ ï·º Ú©Û’ زمانے میں ہو خواہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ خود اس Ú©Ùˆ کیا ہو یا صØ*ابہ کرامؓ Ù†Û’ آپ ï·º Ú©Û’ روبرو کیا ہو اور آپ ï·º Ù†Û’ منع نہ کیا ہو وہ سنت ہے اور جو چیز آپ ï·º Ú©Û’ زمانے میں نہیں ہو اس میں بھی ہر چیز بدعت نہیں بلکہ اس Ú©ÛŒ تفصیل یوں ہے کہ اگر دنیاوی ضرورتوں سے اس کا تعلق ہو وہ بھی بدعت نہیں بشرطیکہ شریعت Ú©ÛŒ کسی اور دلیل سے وہ منع ہوجائے۔ جیسے شربت پینا منع نہیں کہ وہ دنیا سے متعلق ہے۔ سگریٹ نوشی بھی دنیاوی چیز ہے لیکن منع ہے اس لیے کہ وہ نقصان دہ چیز ہے اور شریعت نقصان دہ چیزوں Ú©Û’ استعمال سے منع فرماتی ہے۔
لیکن اگر اس چیز کا تعلق عبادت سے ہے تو اگر وہ صØ*ابہؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ Ú©Û’ دور میں پیدا ہوئی اور ان Ø*ضرات Ù†Û’ اطلاع ہونے پر اس سے منع نہیں فرمایا تو وہ بھی بدعت نہیں۔ اگر ان Ø*ضرات Ù†Û’ اس سے منع فرمایا تو پھر وہ عمل بدعت ہوگا۔
فی الدین، للدین
سنت Ùˆ بدعت Ú©ÛŒ بØ*Ø« میں ایک اہم نکتہ فی الدین اور للدین کا فرق ہے۔ فی الدین اور للدین کا فرق اگر پیش نظر نہ رہے تو بدعت Ú©Û’ تعین میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔ یہ نکتہ ‏Ø*دیث Ú©Û’ الفاظ فی امرنا(ہمارے دین میں) سے واضØ* ہوتا ہے۔ Ø*والے Ú©Û’ لیے Ø*دیث شریف دوبارہ پیش خدمت ہے۔
من اØ*دث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (صØ*ÛŒØ* البخاری، كتاب الصلØ*)
ترجمہ: جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من اØ*دث فی دیننا ما لیس منہ فھو رد
ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی تو وہ مردود ہوگی
جاننا چاہیے کہ ہر نئی بات Ú©Ùˆ بدعت ممنوعہ نہیں کہا جاسکتا بلکہ جو عمل فی الدین (دین Ú©Û’ اندر) یعنی دین قرار دے کر اور عبادت Ú©ÛŒ طرØ* اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھ کر کیا جائے Ø*الانکہ شریعت میں اس Ú©ÛŒ کوئی دلیل نہ ہو، نہ قرآن Ùˆ سنت سے نہ قیاس سے نہ اجتہاد سے، جیسے عیدین Ú©ÛŒ نماز میں اذان اور اقامت کا اضافہ کرنا تو یہ بدعت ہے۔ البتہ وہ کام اس Ø´Ú©Ù„ میں شریعت میں موجود نہ ہو لیکن اس Ú©ÛŒ اصل دین میں موجود ہو اور یہ کام اس سے مستنبط (اخذ) ہو اس صورت میں وہ بدعت شمار نہ ہوگا۔ سیدنا عمرؓ کا تراویØ* Ú©ÛŒ نماز جاری کرنا اس Ú©ÛŒ مثال ہے۔ تراویØ* رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اپنی Ø*یات مبارک میں باجماعت ادا فرمائی تھی، سیدنا عمرؓ Ù†Û’ فقط رسول اللہ ï·º Ú©Û’ عمل کا ازسر نو اجرا فرمایا۔ یہاں سے یہ معلوم ہوگیا کہ جو عبادت رسول اللہ ï·º یا صØ*ابہ کرامؓ سے قولا ثابت ہو یا فعلا یا صراØ*تا یا اشارتا وہ بھی بدعت نہیں ہوسکتی۔
اسی طرØ* جو نیا کام للدین(دین Ú©Û’ لیے، نہ کہ دین Ú©Û’ اندر) ہو یعنی دین Ú©Û’ استØ*کام اور مضبوطی اور دینی مقاصد Ú©ÛŒ تکمیل اور ان Ú©Ùˆ Ø*اصل کرنے Ú©Û’ لیے ہو اسے بدعت ممنوعہ نہیں جاسکتا۔ جیسے قرآن شریف جمع کرنے کا مسئلہ، قرآن میں اعراب لگانا، کتب Ø*دیث Ú©ÛŒ تالیف، اسی طرØ* اØ*کام فقہ کا مدون کرنا، مدارس کا قیام، خانقاہوں Ú©ÛŒ تعمیر، تعلیمی اور تبلیغی انجمنوں کا قیام، جدید ہتھیاروں کا Ø*اصل کرنا وغیرہ بدعت نہیں۔ یہ سب اØ*داث فی الدین (دین Ú©Û’ اندر نئی بات) نہیں بلکہ اØ*داث للدین (دین Ú©Û’ لیے نئی بات)ہیں۔ مثلا رسول اللہ ï·º Ú©Û’ دور میں مدارس کا وجود نہیں تھا۔ لیکن دینی علوم Ú©ÛŒ Ø*فاظت Ú©Û’ تقاضوں Ù†Û’ علما Ú©ÛŒ تیاری کا تقاضا پیدا کردیا جس Ú©ÛŒ وجہ سے مدارس کا نظام قائم کیا گیا۔ لیکن اس طرØ* Ú©Û’ کام خود اپنی ذات میں عبادت نہیں ہیں۔ یہ کام اس اعتبار سے عبادت ہیں کہ ان سے Ø*فاظت دین میں مدد ملتی ہے۔ اگر آج کوئی اور ذریعہ وجود میں آجائے جس سے دینی علوم Ú©ÛŒ Ø*فاظت ہوسکے تو پھر مدارس Ú©ÛŒ ضرورت نہیں رہے گی۔ غرض یہ کہ کہ کسی دینی تقاضے اور مقصد Ú©Ùˆ پورا کرنے Ú©Û’ لیے بضرورت زمان Ùˆ مکان کوئی نئی صورت اختیار کرلینا منع نہیں ہے۔ یہ اØ*داث فی الدین نہیں بلکہ اØ*داث للدین ہے اور منع اØ*داث فی الدین ہے نہ کہ اØ*داث للدین۔
اسی طرØ* عادات اور دنیوی ضروریات Ú©Û’ لیے جو نئے نئے آلات اور طریقے روزمرہ ایجاد ہوتے رہتے ہیں یہ لغوی اعتبار سے بدعت ہیں ان کا شرعی بدعت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ ایسے اعمال بطور عبادت اور ثواب Ú©ÛŒ نیت سے اختیار نہیں کیے جاتے یہ سب جائز ہیں جب تک وہ کسی شرعی Ø*Ú©Ù… Ú©Û’ مخالف نہ ہوں۔ مثلا کوئی انسان سفر Ú©Û’ لیے گاڑی Ú©Û’ بجائے ہوائی جہاز اس لیے اختیار نہیں کرتا کہ اس میں زیادہ ثواب ملے گا۔
للدین اور فی الدین یہ کا فرق اگر اوجھل ہوجائے تو پھر انسان کو بدعت کو سمجھنے اور ماننے میں مغالطہ ہوجاتا ہے۔
بدعت کی قسمیں
1) بدعت اعتقادی
2) بدعت عملی
بدعت اعتقادی: بدعت اعتقادی یہ ہے کہ کوئی شخص یا جماعت ایسے نظریات رکھے جو رسول اللہ ﷺ، صØ*ابہ کرامؓ، تابعینؒ Ùˆ تبع تابعینؒ Ú©Û’ خلاف ہوں۔ عقیدے Ú©ÛŒ بدعت بعض اوقات کفریہ ہوتی ہے جس Ú©ÛŒ ایک مثال قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ بعض اعتقادی بدعتیں کفر تو نہیں مگر گمراہی ضرور ہیں۔
عملی بدعت: عملی بدعت یہ ہے کہ عقیدے میں تو تبدیلی نہ ہو مگر بعض ایسے اعمال اختیار کیے جائیں جو رسول اللہ ﷺ، خلفائے راشدین اور صØ*ابہؓ سے منقول نہ ہوں۔
اعمال Ú©ÛŒ بدعت Ú©ÛŒ اور قسم ہے کہ اعمال Ú©Û’ ڈھانچے تو وہی ہوں جو شریعت سے ثابت ہیں لیکن ان کا رکھ رکھاؤ اور ظاہری اہتمام پہلے سے Ú©Ú†Ú¾ بدل جائے جو پچھلوں Ú©Û’ عمل سے ثابت نہ ہو۔ مثلا تہجد Ú©ÛŒ نماز رسول اللہ ï·º اور صØ*ابہؓ Ú©Û’ دور میں عام طور پر گھروں میں Ù¾Ú‘Ú¾ÛŒ جاتی تھی۔ اب اگر اسے اعلان Ùˆ اہتمام Ú©Û’ ساتھ باجماعت مسجد میں پڑھا جانے Ù„Ú¯Û’ تو یہ ایک نیا عمل سمجھا جائے گا۔ جلیل القدر صØ*ابی Ø*ضرت عبداللہ بن عمرؓ مسجد میں Ø*ضرت ام المؤمنین Ú©Û’ Ø*جرے Ú©ÛŒ طرف بیٹھے تھے۔ ان Ú©Ùˆ بتایا گیا کہ Ú©Ú†Ú¾ لوگ چاشت Ú©ÛŒ نماز جماعت سے Ù¾Ú‘Ú¾ رہے ہیں۔ آپؓ Ù†Û’ فرمایا: ’’یہ بدعت ہے۔‘‘
چاشت Ú©ÛŒ نماز (صلوۃ الضØ*ÛŒ) رسول اللہ ï·º سے ثابت ہے لیکن لوگوں Ù†Û’ جب اسے مسجد میں اہتمام سے باجماعت پڑھنا شروع کیا، جو ایک مسنون عمل Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں اپنی طرف سے تبدیلی کرنا تھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ Ù†Û’ اس Ú©Û’ اس اہتمام Ú©ÛŒ وجہ سے اس Ú©Û’ بدعت ہونے کا فتوی دے دیا۔