دلیل عام، دلیل خاص
بدعت Ú©Û’ موضوع Ú©Ùˆ سمجھنے Ú©Û’ لیے یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی عمل جو عبادت طور پر کیا جاتا ہے اس Ú©Û’ لیے شریعت سے دلیل درکار ہوتی ہے۔ صرف اتنی دلیل کافی نہیں ہوتی کہ شریعت میں اس پر منع نہیں آئی۔ نہ ہی کسی عام دلیل سے وہ خاص عمل جائز ہوجاتا ہے۔ بلکہ اس Ú©Ùˆ اختیار کرنے Ú©Û’ لیے تفصیلی دلیل درکار ہوتی ہے۔ تفصیلی دلیل Ú©Û’ بغیر وہ عمل بدعت بن جائے گا۔ اس Ú©Ùˆ یوں بھی کہتے ہیں کہ عام اØ*کامات سے خاص اعمال ثابت نہیں ہوتے۔ مثلا: اوپر چاشت Ú©ÛŒ نماز باجماعت ادا کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا اس Ú©Û’ جائز ہونے Ú©Û’ لیے یہ دلیل کافی نہیں کہ چاشت Ú©ÛŒ نماز شریعت سے ثابت ہے (یہ عام دلیل ہوئی)Û” اس واقعے میں چاشت Ú©ÛŒ نماز یا کسی نفل نماز Ú©Ùˆ جماعت سے ادا کرنے کا ثبوت درکار تھا (یہ تفصیلی دلیل ہوئی)Û” یقینا ایسی کوئی تفصیلی دلیل موجود نہیں تھی جس Ú©ÛŒ وجہ سے جلیل القدر صØ*ابیؓ Ù†Û’ اس عمل Ú©Ùˆ بدعت قرار دے دیا۔
ایک اور مثال سے اس Ú©Ùˆ سمجھیے۔ شریعت Ù†Û’ اذان Ú©Ùˆ نماز سے پہلے یا نومولود Ú©Û’ کان میں دینے کا Ø*Ú©Ù… دیا ہے اب اگر کوئی شخص اسے دیگر موقعوں پر عمل میں لاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ شریعت سے اس موقع پر اذان کہنے Ú©ÛŒ دلیل پیش کرے (اس Ú©Ùˆ تفصیلی دلیل کہتے ہیں)Û” صرف اذان Ú©ÛŒ فضیلت بیان کرنے سے وہ عمل جائز نہیں ہوگا (یہ عام دلیل ہوئی) بلکہ بدعت Ú©Û’ دائرے میں آجائے گا۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز بدعت نہ ہو وہ بدعت کیسے بنتی ہے۔
جو چیز بدعت نہ ہو وہ بدعت کیسے بنتی ہے
بدعت صرف یہ نہیں کہ کوئی نئی عبادت اپنی طرف سے شروع کی جائے بلکہ اور بھی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کوئی عمل بدعت بن جاتا ہے۔
شریعت Ú©Û’ بتائے ہوئے کسی عمل Ú©Ùˆ اس Ú©Û’ موقع Ù…Ø*Ù„ سے ہٹانا
Ø*دیث

عن نافع ان رجلا عطس الى جنب ابن عمر فقال الØ*مد لله والسلام على رسول الله قال ابن عمر وانا اقول الØ*مد لله والسلام على رسول الله وليس هكذا علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم علمنا ان نقول الØ*مد لله على كل Ø*ال قال (سنن الترمذی، کتاب الادب)
ترجمہ: Ø*ضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ ایک شخص Ù†Û’ سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ Ú©Û’ قریب چھینک ماری اور خود ہی کہا:’’الØ*مدللہ والسلام علی رسول اللہ‘‘ سیدنا ابن عمرؓ Ù†Û’ فرمایا: ’’یہ تو میں بھی کہتا ہوں کہ الØ*مدللہ Ùˆ السلام علی رسول اللہ لیکن ہمیں جناب رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ تعلیم نہیں دی، ہمیں اس موقع پر اس Ú©ÛŒ تعلیم دی ہے کہ ہم الØ*مدللہ علی Ú©Ù„ Ø*ال کہا کریں۔‘‘
کیونکہ چھینک Ú©Û’ بعد صرف الØ*مدللہ کہنا ہی شریعت سے ثابت ہے اس لیے سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ Ù†Û’ درود شریف کا اضافہ کرنا جائز قرار نہیں دیا۔ یہی شریعت کا اصول ہے کہ اعمال میں جو Ú©Ú†Ú¾ شریعت Ù†Û’ بتایا ہے اسی طرØ* کرنا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ Ø*ضرت عبداللہ ابن عمرؓ Ù†Û’ الØ*مدللہ سے پہلے درود شریف Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ سے منع فرمایا۔ Ø*ضرت عبداللہ بن عمرؓ Ú©Û’ الفاظ تھے:
’’لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسا کہنا نہیں سکھایا‘‘
یعنی رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اس موقع پر درود شریف پڑھنا نہیں سکھایا اس لیے یہاں درود شریف پڑھنا بے موقع تھا۔ غور فرمائیے درود شریف Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ کس قدر فضائل ہیں لیکن Ø*ضرت ابن عمرؓ جیسے جلیل القدر صØ*ابی اس Ú©Ùˆ بے موقع Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ سے منع فرما رہے ہیں۔
بات وہی ہے کہ عبادات Ú©Û’ معاملے میں ہمیں کوئی اختیار نہیں کہ جب جہاں چاہیں اپنی طرف سے اضافہ کردیں۔ بلکہ ہمیں اتباع کا Ø*Ú©Ù… ہے۔ جہاں شریعت Ù†Û’ جو Ø*Ú©Ù… فرمایا ویسا ہی کرنا ہے۔ نہ Ú©Ù… نہ زیادہ!
شرعی دلیل کے بغیر اپنی طرف سے کسی کام کو نیکی کا سمجھ کر کرنا
Ø*دیث

عن مجاهد عن ابن عباس انه طاف مع معاوية بالبيت فجعل معاوية يستلم الاركان كلها فقال له لم تستلم هذين الركنين ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يستلمهما فقال معاوية ليس شيء من البيت مهجورا فقال ابن عباس لقد كان لكم في رسول الله اسوة Ø*سنة سورة الاØ*زاب فقال معاوية صدقت (مسند اØ*مد، مسند عبداللہ بن العباس، صØ*ÛŒØ*)
ترجمہ: Ø*ضرت عبداللہ بن عباسؓ اور Ø*ضرت معاویہؓ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے تھے۔ Ø*ضرت امیر معاویہؓ Ù†Û’ بیت اللہ Ú©Û’ تمام کونوں Ú©Ùˆ بوسہ دیا، Ø*ضرت عباسؓ Ù†Û’ فرمایا: ’’رسول اللہ ï·º Ù†Û’ ان دونوں کونوں یعنی رکن یمانی اور Ø*جر اسود Ú©Û’ علاوہ کسی اور گوشے Ú©Ùˆ بوسہ نہیں دیا کرتے تھے۔‘‘ Ø*ضرت معاویۃؓ Ù†Û’ فرمایا: ’’اس مقدس گھر Ú©ÛŒ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس Ú©Ùˆ چھوڑا جائے۔‘‘ Ø*ضرت ابن عباسؓ Ù†Û’ فرمایا: ’’لقد کان Ù„Ú©Ù… فی رسول اللہ اسوۃ Ø*سنۃ (تمہارے لیے رسول Ú©ÛŒ ذات میں بہترین نمونہ ہے)۔‘‘ Ø*ضرت معاویہؓ Ù†Û’ فرمایا: ’’آپ کا فرمانا صØ*ÛŒØ* ہے۔‘‘ اگرچہ بیت اللہ کا ہر ذرہ متبرک ہے مگر ہمیں وہ عمل کرنا ہے جو رسول اللہ ï·º سے ثابت ہے
Ú¯Ùˆ اس عمل پر کوئی منع نہیں تھی لیکن Ø*ضرت عبداللہ ابن عباسؓ Ù†Û’ صرف ایک دلیل دی کہ یہ عمل رسول اللہ ï·º سے ثابت نہیں اس لیے ہمیں نہیں کرنا چاہیے۔ Ø*ضرت معاویہؓ Ú©Û’ عمل Ú©Û’ Ù…Ø*رک پر آپ اگر غور کریں تو وہ Ø*ب بیت اللہ تھا۔ بہت سی بدعات جو ہمارے ہاں رائج ہیں ان کا سبب Ø*ب رسول ï·º ہی ہے لیکن Ø*ضرت امیر معاویہؓ Ú©Û’ الفاظ پر غور فرمائیں:
’’اگرچہ بیت اللہ کا ہر ذرہ متبرک ہے مگر ہمیں وہ عمل کرنا ہے جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔‘‘
یعنی Ù…Ø*بت کا سب سے بڑا اظہار اتباع ہے۔ صØ*ابہ کرامؓ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ اØ*ترام میں آپ ï·º Ú©Û’ تشریف لانے پر کھڑا ہونا چاہتے تھے لیکن رسول اللہ ï·º Ù†Û’ منع فرما دیا تو پھر اپنے جذبے Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر اتباع اختیار کرلی۔
شریعت کے بتائے ہوئے کسی کام میں اپنی طرف سے قید بڑھانا
وہ کام جن Ú©Ùˆ شریعت Ù†Û’ کرنے کا Ø*Ú©Ù… دیا ہے ان میں اپنی طرف سے قید لگائی جائے یا ان Ú©ÛŒ کیفیت بدل دی جائے یا اپنی طرف سے ان Ú©Û’ اوقات متعین کردیے جائیں ایسا کرنا بھی بدعت ہے۔ Ø*ضرت ابوہریرۃؓ رسول اللہ ï·º سے روایت کرتے ہیں:
Ø*دیث
لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي ولا تخصوا يوم الجمعة بصيام من بين الايام الا ان يكون في صوم يصومه اØ*دكم (صØ*ÛŒØ* مسلم، كتاب الصيام)
ترجمہ: جمعہ کی رات کو دوسری راتوں سے نماز اور قیام کے لیے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں سے روزہ کے لیے خاص نہ کرو، البتہ اگر کوئی شخص روزے رکھتا ہو اور جمعہ کا دن بھی اس میں آجائے تو الگ بات ہے
اس Ø*دیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن یقینا فضیلت والا ہے جو نماز جمعہ Ú©ÛŒ وجہ سے ہے جو شریعت Ù†Û’ مقرر Ú©ÛŒ ہے۔ لیکن اس دن Ú©ÛŒ فضیلت Ú©ÛŒ وجہ سے جمعہ Ú©ÛŒ رات Ú©Ùˆ اپنی طرف سے عبادت Ú©ÛŒ رات بنانا صØ*ÛŒØ* نہیں۔ یعنی اپنی طرف سے کسی دن یا رات Ú©ÛŒ فضیلت اور برکت متعین نہیں Ú©ÛŒ جاسکتی۔
Ø*دیث
قال عبد الله لا يجعل اØ*دكم للشيطان شيئا من صلاته يرى ان Ø*قا عليه ان لا ينصرف الا عن يمينه لقد رايت النبي صلى الله عليه وسلم كثيرا ينصرف عن يساره (صØ*ÛŒØ* البخاری، ابواب الصفۃ الصلاۃ)
ترجمہ: Ø*ضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شیطان Ú©Û’ لیے Ú©Ú†Ú¾ Ø*صہ نہ ٹھہرائے اس طور پر کہ نماز سے فارغ ہوتے وقت داہنی طرف ہی پھیرنے Ú©Ùˆ اپنے اوپر لازم سمجھ Ù„Û’ اس واسطے کہ میں Ù†Û’ رسول اللہ ï·º Ú©Ùˆ بعض اوقات بائیں طرف بھی مڑتے دیکھا ہے
اس روایت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ باوجود یہ کہ رسول اللہ ï·º بہت سارے امور میں داہنے پہلو Ú©Ùˆ ترجیØ* دیتے تھے، سلام Ú©Û’ بعد امام کا داہنی طرف بیٹھنے Ú©Ùˆ لازم سمجھ لینا شریعت میں زیادتی ہے۔
Ø*اصل یہ ہے کہ اعمال Ú©ÛŒ جو کیفیت، وقت وغیرہ شریعت Ù†Û’ متعین کیے ہیں اپنی طرف سے اس میں کسی قسم کا اضافہ صØ*ÛŒØ* نہیں ہے۔ اسی طرØ* شریعت Ù†Û’ کسی عمل کا جو درجہ مقرر کیا ہے اس Ú©Ùˆ اس درجے سے ہٹانا بھی بدعت ہے۔
بزرگان دین کے اعمال کو دینی اعمال بنانا
کسی اللہ والے Ú©Û’ اعمال Ú©Ùˆ دینی اعمال بنا کر پیش کرنا، اور سے ان سے بہت سا اجر Ùˆ ثواب جوڑنا ہے وہ بھی بدعت میں شامل ہے۔ بڑی راتوں Ú©Û’ بہت سارے اعمال اسی طرØ* Ú©Û’ ہیں۔ Ø*ضور ï·º Ú©Û’ وقت Ú©ÛŒ قائم شدہ سنتوں بعد اگر کسی Ú©Û’ عمل Ú©Ùˆ شریعت Ù†Û’ Ø*جت مانا تو ہے تو وہ صرف خلفائے راشدینؓ کا عمل ہے اور وہ بھی اس لیے کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اس کا Ø*Ú©Ù… فرمایا ہے (دیکھیے ‏ پیچھے شرعی مسائل Ú©Û’ Ø*Ù„ Ú©Û’ ذرائع)Û”
Ø*ضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں:
’’Ø*ضرات صوفیا Ú©ÛŒ بات Ø*Ù„ Ùˆ Ø*رمت (Ø*لال Ùˆ Ø*رام) میں سند نہیں ہے یہی کافی ہے کہ ہم ان Ú©Ùˆ ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ سپرد کردیں۔ اس جگہ امام ابوØ*نیفہؒ امام ابویوسفؒ اور امام Ù…Ø*مد کا قول معتبر ہوگا نہ کہ شبلی اور ابوØ*سن نوری جیسے صوفیا کرام کا عمل۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول مکتوب 266)
(جاری ہے)