بدعات میں خوبی
دنیا میں شاید ہی کوئی چیز ایسی ہو جس میں اس کی خرابی کے باوجود اس میں کوئی خوبی نہ ہو۔ شراب اور جوئے کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے:
آیت
فیھما اثم کبیر و منافع للناس (البقرۃ:219 )
ترجمہ: ان دونوں (شراب اور جوئے) میں گناہ بڑا ہے اور لوگوں کے لیے ان میں کچھ منافع ہے
اس Ú©Û’ باوجود کہ ان میں منافع ہیں ان Ú©ÛŒ خرابیوں Ú©ÛŒ وجہ سے ان Ú©Ùˆ Ø*رام قرار دے دیا گیا۔اسی طرØ* بدعت Ú©Û’ Ù…Ø*اسن اور خوبیاں بھی گنوائی جاسکتی ہیں لیکن جس چیز Ú©Ùˆ شریعت Ù†Û’ منع کردیا اس میں خوبیوں کا دعوی بہت بڑی جسارت ہے۔درØ*قیقت وہ اعمال جن میں شریعت Ú©ÛŒ اصل نہیں اور لوگوں Ù†Û’ خود بنا رکھے ہوں شیطان انہیں ایسی زینت اور رونق دیتا ہے کہ دین ناواقف لوگ اس Ú©ÛŒ Ú†Ù…Ú© دمک میں Ú©Ú¾Ùˆ جاتے ہیں۔ اور Ø*رص Ú©Û’ بندے اس Ú©Ùˆ بڑھاتے ہی رہتے ہیں یہاں تک کہ بہت سے لوگ اس فتنے میں پوری طرØ* ڈوب جاتے ہیں۔ ابلیس لعین Ù†Û’ کہہ دیا تھا:
آیت
قال رب بما اغويتني لازينن لهم في الارض ولاغوينهم اجمعين(الØ*جر: 39)
ترجمہ: (شیطان نے) کہا کہ پروردگار جیسا تو نے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لیے (گناہوں) کو آراستہ کر دکھاؤں گا اور سب کو بہکاؤں گا
لیکن Ø*Ù‚ تعالیٰ کا فرمان ہے:
آیت
قل هل ننبئكم بالاخسرين اعمالا () الذين ضل سعيهم في الØ*ياة الدنيا وهم ÙŠØ*سبون انهم ÙŠØ*سنون صنعا() (الکہف: 103-104)
ترجمہ: آپ فرمائیے کہمیں تمہیں بتلاؤں کہ کون لوگ اپنے اعمال میں زیادہ خسارے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی سعی و عمل دنیا کی زندگی میں ضائع اور بے کار ہوگئی اور وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ہم اچھا عمل کررہے ہیں
اس لیے ایسا کوئی کام جس Ú©ÛŒ ضرورت رسول اللہ ï·º اور صØ*ابہ کرامؓ Ú©Û’ زمانے اور بعد Ú©Û’ ادوار میں یکساں ہے ان میں کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرنا جو رسول اللہ ï·º اور صØ*ابہ کرامؓ، تابعینؒ اور تبع تابعینؒ سے ثابت نہیں تو یہ بدعت قائم کرنا ہے۔ مثلا: ایصال ثواب Ú©Û’ وقت مختلف سورتوں Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©ÛŒ پابندی، ایصال ثواب Ú©Û’ لیے تیجہ، چہلم وغیرہ Ú©ÛŒ پابندی، بڑی راتوں میں خود ایجاد کردہ نمازوں اور اذکار Ú©ÛŒ پابندی اور ان میں چراغاں وغیرہ اور پھر ان خود ایجاد چیزوں Ú©Ùˆ فرض Ùˆ واجب Ú©ÛŒ طرØ* سمجھنا اور ان میں شریک نہ ہونے والوں پر لعن طعن کرنا وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ صدقہ خیرات، اموات Ú©Ùˆ ایصال ثواب، بڑی راتوں میں عبادات وغیرہ ان Ú©ÛŒ ضرورت جیسے آج ہے ایسے صØ*ابہؓ Ú©Ùˆ بھی تھی ان Ú©Û’ ذریعہ اللہ Ú©ÛŒ رضا Ø*اصل کرنے کا ذوق Ùˆ شوق جیسے آج کسی نیک بندے Ú©Ùˆ ہوسکتا ہے ان Ø*ضرات Ú©Ùˆ بھی تھا لیکن عبادات کا جو طریقہ رسول اللہ ï·º اور ان Ú©Û’ اصØ*ابؓ Ù†Û’ نہیں اختیار کیا وہ دیکھنے میں کتنا ہی دلکش نظر آئے وہ اللہ تعالیٰ اور اس Ú©Û’ رسول ï·º Ú©Û’ نزدیک اچھا نہیں۔اہلسنت Ùˆ الجماعت Ú©Û’ امام، امام مالکؒ کا قول ہے:
ما لم يكن يومئذ دينا فلن يكون اليوم دينا (الاعتصام، للشاطبی)
ترجمہ: جو اُس زمانے میں دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہوسکتا
بدعت Ø*سنہ کا مفہوم
رسول اللہ ﷺ کے ارشاد گرامی
کل بدعۃ ضلالۃ
ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے
Ú©Û’ بعد کسی بدعت میں Ø*سن تلاش کرنا ایمان Ú©Ùˆ خطرے میں ڈالنا ہے۔ البتہ بعض علما Ù†Û’ بعض اعمال Ú©Û’ لیے بدعت Ø*سنہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ انہوں Ù†Û’ ان اعمال Ú©Û’ لیے کیا ہے جو شریعت Ú©Û’ اصولوں Ú©Û’ مطابق ہیں۔ Ú¯Ùˆ اØ*وال Ú©Û’ اعتبار سے ان Ú©ÛŒ صورت Ú©Ú†Ú¾ بدل گئی۔ تراویØ* اس Ú©ÛŒ مثال ہے۔ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ تراویØ* ادا Ú©ÛŒ اور چند دن بلا کسی اعلان Ú©Û’ جماعت Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ بھی بن گئی۔ لیکن فرض ہوجانے Ú©Û’ اندیشے Ú©ÛŒ وجہ سے آپ ï·º Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ جماعت سے پڑھنا موقوف فرما دیا تھا۔ سیدنا عمرؓ Ù†Û’ اپنے دور خلافت میں اس Ú©Ùˆ ازسرنو جاری کیا جو بدعت نہیں ہے۔ Ø*ضرت عمرؓ کا نعمۃ البدعۃ فرمانا بھی انہی معنوں میں تھا۔
بدعت Ø*سنہ کا ایک اور مفہوم بھی ہے۔ اس سلسلے میں اعلیØ*ضرت مولانا اØ*مد رضا خانؒ Ú©ÛŒ یہ عبارت ملاØ*ظہ ہو:
’’اذان Ú©Û’ بعد صلوۃ Ùˆ سلام 781Ú¾ میں سوموار Ú©Û’ دن عشاء Ú©ÛŒ نماز Ú©Û’ وقت شروع ہوا پھر جمعہ Ú©Û’ دن پھر دس سال Ú©Û’ بعد یعنی 791Ú¾ میں مغرب Ú©Û’ سوا باقی تمام نمازوں Ú©ÛŒ اذان میں شروع کیا گیا اور وہ بدعت Ø*سنہ ہے۔‘‘ (اØ*کام شریعت ص، 118)
یہاں لفظ بدعت Ø*سنہ، بدعت سئیہ Ú©Û’ مقابل لایا گیا ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ سلطان صلاØ* الدین ایوبیؒ Ú©Û’ فتØ* مصر سے پہلے وہاں فاطمیوں Ú©ÛŒ Ø*کومت تھی جو روافض یعنی شیعہ تھے۔ انہوں Ù†Û’ اذان میں، جو رسول اللہ ï·º Ú©Û’ زمانے سے Ù„Û’ کر اس وقت تک کسی اضافے Ú©Û’ بغیر دی جاتی تھی، السلام علی ملک الظاھرکا اضافہ کر دیا تھا۔ ان Ú©ÛŒ Ø*کومت Ú©Û’ ایک صدی سے زائد عرصے میں اس پر عمل ہوتا رہا اور خود اہل سنت اس Ú©Ùˆ اذان کا Ø*صہ سمجھ بیٹھے تھے (Ø*اشیہ: [1])Û” سلطان صلاØ* الدینؒ کا مصر فتØ* کرنے Ú©Û’ بعد اس بدعت Ú©Ùˆ ختم کرنے کا ارادہ ہوا لیکن یکدم اس Ú©Ùˆ ختم کرنے سے عوام میں شورش برپا ہو جانے کا اندیشہ تھا۔ چنانچہ انہوں Ù†Û’ السلام علی ملک الظاھرکو السلام علی رسول اللہسے بدل ڈالا۔ جس سے ان کا مقصد اذان میں اضافے Ú©ÛŒ بدعت سئیہ کا خاتمہ تھا۔ چنانچہ جب Ø*کومت Ú©Ùˆ استØ*کام Ø*اصل ہوگیا تو اذان Ú©Ùˆ اس بدعت سے خالی کرلیا گیا۔
Ø*اصل یہ ہے اگر کسی جگہ کوئی بدعت سئیہ قائم ہو تو اس Ú©Ùˆ اØ*سن طریقے سے ختم کرنے کا نام بدعت Ø*سنہ ہے۔ بدعت Ø*سنہ اپنی مصلØ*ت Ú©Û’ اعتبار سے Ø*سنہ ہے کیونکہ ایک بڑی برائی Ú©Ùˆ ختم کرنا ہے۔ خود بدعت Ø*سنہ میں کوئی Ø*سن نہیں Ù…Ø*ض تقابل Ú©ÛŒ وجہ سے آرہا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ فرمایا ہے:
Ø*دیث
کل بدعۃ ضلالۃ
ترجمہ: ہر بدعت گمراہی ہے
بدعت Ø*سنہ Ú©ÛŒ تردید رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ زبان مبارک سے
Ø*دیث

جاء ثلاثة رهط الى بيوت ازواج النبي يسالون عن عبادة النبي فلما اخبروا كانهم تقالوها وقالوا اين Ù†Ø*Ù† من النبي قد غفر له تقدم من ذنبه وما تاخر قال اØ*دهم اما انا فاصلي الليل ابدا وقال الآخر وانا اصوم الدهر ولا افطر وقال الآخر وانا اعتزل النساء فلا اتزوج ابدا فجاء رسول الله اليهم فقال انتم الذين قلتم كذا وكذا اما والله اني لاخشاكم لله واتقاكم له لكني اصوم وافطر واصلي وارقد واتزوج النساء فمن رغب عن سنتي فليس مني (صØ*ÛŒØ* البخاری، کتاب النکاØ* )
ترجمہ: تین لوگ رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ بیویوں Ú©ÛŒ خدمت میں Ø*اضر ہوئے تاکہ ان سے آپ ï·º Ú©ÛŒ عبادت کا Ø*ال دریافت فرمائیں، جب ان لوگوں Ú©Ùˆ آپ ï·º Ú©ÛŒ عبادت کا Ø*ال بتلایا گیا تو انہوں Ù†Û’ آپ ï·º Ú©ÛŒ عبادت Ú©Ùˆ Ú©Ù… خیال کرکے آپس میں کہا کہ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ مقابلے میں ہم کیا چیز ہیں، اللہ تعالیٰ Ù†Û’ تو آپ ï·º Ú©Û’ اگلے Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ سارے گناہ معاف کردیے ہیں ان میں سے ایک Ù†Û’ کہا کہ اب میں ہمیشہ ساری رات نماز Ù¾Ú‘Ú¾ÙˆÚº گا، دوسرے Ù†Û’ کہا میں دن Ú©Ùˆ ہمیشہ روزہ رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا تیسرے Ù†Û’ کہا کہ میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاØ* نہ کروں گا (ابھی یہ بات کرہی رہے تھے) کہ رسول اللہ ï·º تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگوں Ù†Û’ یوں کہا ہے خبردار میں تم سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقوی اختیار کرتا ہوں لیکن باوجود اس Ú©Û’ میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاØ* بھی کرتا ہوں (یہی سنت طریقہ ہے لہذا) جو شخص میری سنت سے انØ*راف کرے گا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میری جماعت سے خارج ہے)
اس Ø*دیث میں صØ*ابہ کرامؓ Ù†Û’ اپنے فہم Ú©Û’ مطابق کثرت عمل کا ارادہ کیا تھا جو دراصل بدعت Ø*سنہ ہے، لیکن چونکہ ان Ø*ضراتؓ کا عمل سنت طریقے Ú©Û’ خلاف تھا اس لیے رسول اللہ ï·º Ù†Û’ ناپسند فرمایا اور منع فرما دیا۔ بدعت Ø*سنہ Ú©ÛŒ روØ* یا فلسفہ یہی ہے کہ اعمال میں اپنے طور پر Ú©Ú†Ú¾ رد Ùˆ بدل کرلیا جائے تاکہ ثواب زیادہ ملے لیکن رسول اللہ ï·º Ù†Û’ ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ایک اور واقعہ ملاØ*ظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ علمائے اہل سنت والجماعت بدعت Ú©Û’ معاملے میں کس قدر Ø*ساس اور سنجیدہ ہیں۔
اہلسنت Ùˆ الجماعت Ú©Û’ امام، امام مالکؒ (امام دار الہجرۃ) Ú©Û’ پاس ایک شخص آیا اور اس Ù†Û’ سوال کیا کہ میں اØ*رام کہاں سے باندھوں؟ آپؒ Ù†Û’ جواب دیا کہ ذوالØ*لیفہ سے جہاں سے رسول اللہ ï·º Ù†Û’ باندھا تھا۔ جواب میں اس شخص Ù†Û’ کہا کہ میں چاہتا کہ مسجد نبوی میں قبر اطہر Ú©Û’ پاس باندھوں۔ امام مالکؒ Ù†Û’ فرمایا ایسا مت کرنا مجھے تجھ پر فتنے کا اندیشہ ہے۔ اس شخص Ù†Û’ کہا کہ اس میں فتنے کا کیا اندیشہ ہے بلکہ اس سے تو مسافت میں اضافہ ہوجائے گا (یعنی ایسا کرنے سے مجھے Ø*الت اØ*رام میں زیادہ مسافت Ø·Û’ کرنے کا اجر ملے گا)Û” اس پر امام مالکؒ Ù†Û’ فرمایا:
واي فتنة اعظم من ان ترى انك سبقت الى فضيلة قصر عنها رسول الله ﷺ (الاعتصام للشاطبی)
ترجمہ: اس سے بڑھ کر فتنہ کیا ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بڑھ کر رہا ہے
میں نے اللہ پاک کا فرمان سنا ہے:
فليØ*ذر الذين يخالفون عن امره ان تصيبهم فتنة او يصيبهم عذاب اليم (النور : 63)
ترجمہ: تو جو لوگ ان Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… Ú©ÛŒ مخالفت کرتے ہیں ان Ú©Ùˆ ڈرنا چاہیے کہ (ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت Ù¾Ú‘Û’ یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو
یہ واقعہ بدعتی ذہن کی بھرپور عکاسی کرتا ہے کہ آخر ایسا کرنے میں کیا خرابی ہے؟ لیکن امام مالکؒ نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
’’جو شخص بدعت ایجاد کرتا ہے اور اس کو ثواب کا کام سمجھتا ہے گویا وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ اللہ رسالت میں خیانت کرکے پوری بات امت کو نہیں بتلائی۔ ‘‘ (الاعتصام، للشاطبی)
اب مستدرک Ø*اکم میں Ø*ضرت عبداللہ ابن مسعودؓ Ú©ÛŒ اس روایت Ú©Ùˆ پڑھیے وہ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ فرمایا:
Ø*دیث
لیس من عمل یقرب الی الجنۃ الا و قد امرتکم بہ ولا عمل یقرب الی النار الا قد نھیتکم عنہ
ترجمہ:’’جنت Ú©Û’ نزدیک Ù„Û’ جانے والا کوئی ایسا عمل نہیں جس کا میں تمہیں Ø*Ú©Ù… نہ دے چکا ہوں اور دوزخ تک پہنچانے والا بھی ایسا کوئی عمل نہیں جس سے میں تمہیں منع نہ کرچکا ہوں۔‘‘
یعنی رسول اللہ ï·º Ù†Û’ اللہ تعالیٰ کا دین کامل مکمل طریقے سے جس طرØ* آپ ï·º پر اترا تھا اسی طرØ* امت Ú©Ùˆ پہنچایا ہے۔ جنت میں Ù„Û’ جانے والے تمام اعمال کا صاف صاف Ø*Ú©Ù… دیا اور جہنم والے تمام اعمال سے منع فرمایا ہے۔ اب ان میں رد Ùˆ بدل Ú©ÛŒ کوئی گنجائش نہیں ہے۔3
-----------------------------------------
[1]: بدعت Ú©ÛŒ اتنی سختی سے ممانعت کا یہی سبب ہے کہ بدعت بہت جلد دین ہی Ù„Ú¯Ù†Û’ لگتی ہے اور Ø*رص Ú©Û’ بندے اس Ú©Ùˆ اتنا بڑھا چڑھا دیتے ہیں کہ عام مسلمان دینی فرائض سے زیادہ اہتمام سے اس پر عمل کرتے ہیں۔