بدعت اور مباØ* میں فرق
بدعت Ú©Û’ مفہوم Ú©Ùˆ سمجھنے Ú©Û’ لیے بدعت اور مباØ* کا فرق جاننا بھی بہت ضروری ہے۔ بدعت اور مباØ* دونوں شرعی اصطلاØ*ات ہیں جن Ú©Û’ مفہوم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس فرق Ú©Ùˆ سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ شریعت میں اعمال Ú©ÛŒ تقسیم ہے۔ یہ تقسیم اس طرØ* ہے:
· فرض: جس کا کرنا لازم ے، انکار سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ مثلا: نماز فرض ہے، روزہ فرض ہے۔
· واجب: اس کا کرنا بھی لازم ہے، انکار سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ مثلا: وتر کی نماز واجب ہے۔
· سنت: اس کا کرنا ضروری ہے بلاضرورت چھوڑنے والا گناہگار ہوتا ہے۔ مثلا: مغرب کے فرض کے بعد کی دو رکعتیں سنت ہیں۔ اس کی پھر دو قسمیں ہیں۔
· Ø*رام: جس کا چھوڑنا لازم ہے، انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ مثلا: شراب Ø*رام ہے۔
· مکروہ: جس کا چھوڑنا لازم ہے، انکار سے انسان دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔ سگریٹ نوشی مکروہ ہے۔
· مستØ*ب (نفل): کرنے سے ثواب ملتا ہے نہ کرنے سے گناہ نہیں ہوتا۔ مثلا: چاشت Ú©ÛŒ نماز مستØ*ب ہے۔
· مباØ*: جس Ú©Û’ کرنے سے نہ کوئی ثواب ہے نہ کوئی گناہ۔ مثلا: چائے پینا مباØ* ہے۔
اعمال کے یہ درجے شریعت کے دلائل (قرآن سنت اور اجماع) سے ثابت ہوتے ہیں۔
اب ہم بدعت اور مباØ* میں فرق دیکھتے ہیں۔
جب کسی عمل Ú©Ùˆ مباØ* کہا جاتا ہے تو اس سے مراد ایسا عمل ہے جس Ú©Û’ بارے شریعت میں نہ منع آئی ہو اور نہ جواز اور اس Ú©Ùˆ اختیار کرنے سے کوئی Ù¾Ú©Ú‘ یا مواخذہ نہ ہوگا۔مثلا: شربت پینا ایک مباØ* عمل ہے جس Ú©Û’ پینے پر نہ کوئی ثواب ملتا ہے نہ کوئی گناہ ہوتا ہے۔ مباØ* Ú©Û’ برعکس بدعت Ú©Ùˆ نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے اور اس پر آخرت میں اجر ملنے Ú©ÛŒ امید ہوتی ہے۔ Ø*الانکہ کسی عمل پر ثواب کا Ø*Ú©Ù… صرف شریعت لگا سکتی ہے ہم اپنی طرف سے ایسا کوئی Ø*Ú©Ù… نہیں لگا سکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب کسی عمل Ú©Ùˆ نیکی کا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے اور اس پر ثواب Ú©ÛŒ امید ہوتی ہے تو پھر وہ مباØ* نہیں رہتا بلکہ شریعت Ú©Û’ بتائے ہوئے اعمال میں سے ہوجاتا ہے جس کا ادنی درجہ مستØ*ب (نفل) ہے اور مستØ*ب ایک Ø*Ú©Ù… شرعی ہے جس Ú©Û’ لیے شریعت (قرآن Ùˆ سنت اور اجماع) سے دلیل Ú©ÛŒ ضرورت ہوتی ہے۔ صرف اتنا کافی نہیں ہوتا کہ اس پر کوئی منع تو نہیں آئی ہے۔ اگر کسی پر کام پر شریعت میں منع آئی ہے تو وہ بدعات میں سے نہیں رہتا بلکہ وہ پھر Ø*رام یا مکروہ Ú©Û’ درجے میں ہوتا ہے۔ آپ ï·º کا ارشاد ہے: لیس علیہ امرنایعنی ایسا عمل جس پر ہمارا ثبوت موجود نہیں وہ مردود ہوگا۔ یہ نہیں کہ جس Ú©Ùˆ ہم Ù†Û’ منع فرمایا وہ مردود ہوگا۔
کسی کام کا منع نہ ہونا اس کے جائز ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا
آیت

ياايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء ان تبد لكم تسؤكم (المائدہ: 102)
ترجمہ: اے ایمان والو ان چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر تم پر کھول دی جائیں تو تم کو بری لگیں
یعنی ان کا بیان نہ کرنا بلکہ اس Ú©Û’ بارے میں سوال کرنے سے ڈرانا اس بات Ú©ÛŒ دلیل ہے کہ جن چیزوں Ú©Û’ بارے میں شریعت خاموش ہے ان میں بہت سی چیزوں Ú©Û’ ناجائز ہونے کا اØ*تمال تھا نہ کہ Ø*لال ہونے کا اور یہ اØ*تمال تقاضا کرتا ہے کہ انسان ہر وہ کام جس Ú©ÛŒ دلیل شریعت سے نہ ملے اس میں Ù¾Ú‘Ù†Û’ سے بچے۔
Ø*دیث
وعن النعمان بن بشير رضي الله عنهما قال‏ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول‏ ان الØ*لال بين وان الØ*رام بين وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس فمن اتقى الشبهات استبرا لدينه وعرضه ومن وقع فى الشبهات وقع فى الØ*رام (صØ*ÛŒØ* مسلم،كتاب المساقاة )
ترجمہ: Ø*ضرت نعمان ابن بشیر روایت کرتے ہیں کہ انہوں Ù†Û’ رسول اللہ ï·º Ú©Ùˆ فرماتے سنا: ’’Ø*لال واضØ* ہے اور Ø*رام بھی واضØ* ہے اور ان دونوں Ú©Û’ درمیان Ú©Ú†Ú¾ مشتبہات ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے جو شخص مشتبہات (جن Ú©Û’ بارے میں شبہ ہو) سے کنارہ Ú©Ø´ÛŒ کرے اس Ù†Û’ اپنا دین اور اپنی عزت بچا Ù„ÛŒ اور جو ان میں جا پڑا وہ Ø*رام ہی میں جا پڑا
ایک اہم اصول
اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اس دنیا میں جو چیزیں پیدا Ú©ÛŒ ہیں اور ان میں جو دنیاوی منافع ہیں وہ انسانوں Ú©Û’ لیے اصلا Ø*لال ہیں۔ اس Ú©Ùˆ یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ’’اصل ہر چیز میں اباØ*ت ہے۔‘‘ یعنی اللہ Ú©ÛŒ تمام زمین اور اس سے Ù†Ú©Ù„ÛŒ تمام نعمتیں انسانوں Ú©Û’ لیے اصلا Ø*لال ہیں۔ ان Ú©Ùˆ برتنے Ú©ÛŒ اجازت ہے۔ ان میں Ø*رام وہی چیز ہے جسے شریعت Ù†Û’ Ø*رام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
آیت
هو الذي خلق لكم ما في الارض جميعا (البقرۃ: 29 )
ترجمہ: وہ ہے جس نے پیدا کیا تمہارے لیے جو کچھ زمین میں ہیں
لیکن اس اصول کا تعلق صرف دنیاوی امور سے ہے۔ فرمایا:
في الارض جمیعا
ترجمہ:جو کچھ زمین میں ہے
عبادات اور طاعات سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ عبادات اور طاعات کے لیے شریعت (قرآن و سنت) سے نقل درکار ہے۔