1. #1
    Jun 2015
    35

    Ø*اضر Ùˆ ناظر Ú©Ùˆ سمجھیے

    Ø*اضر Ùˆ ناظر
    ہمارے یہاں جن مسائل پر عموما بØ*Ø« Ú©ÛŒ جاتی ہے ان میں سے ایک رسول اللہ ï·º Ú©Û’ Ø*اضر Ùˆ ناظر ہونے کا مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں یہ تØ*ریر پیش خدمت ہے۔ اس کا بنیادی مواد معروف بریلوی عالم مولانا سید سعید کاظمیؒ Ú©ÛŒ اسی مسئلے پر Ù„Ú©Ú¾ÛŒ ہوئی جامع کتاب ’’تسکین الخواطر فی مسئلۃ Ø*اضر Ùˆ ناظر‘‘سے لیاگیا ہے۔ امید ہے کہ اس مسئلے Ú©ÛŒ علمی Ø*یثیت واضØ* ہو جائے گی۔
    اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے چند باتیں سمجھ لینا ضروری ہے:
    1) انسان Ú©ÛŒ Ø*قیقت روØ* ہے، جسم اس روØ* Ú©Û’ لیے واسطہ ہے۔
    2) موت سے انسان کا مادی جسم فنا ہوجاتا ہے، (انبیائے کرام اس اصول سے متثنی ہیں)Û” روØ* Ú©Ùˆ فنا نہیں وہ باقی رہتی ہے۔
    3) موت Ú©Û’ بعد روØ* کا مقام عالم برزخ ہے جہاں اس Ú©Ùˆ ثواب یا عذاب ہوتا ہے۔
    عالم برزخ Ú©ÛŒ کیفیت سے ہم ناواقف ہیں اسی لیے روØ* Ú©Ùˆ پہنچنے والے ثواب یا عذاب Ú©ÛŒ کیفیت ہم Ú©Ùˆ نہیں معلوم۔ اہل علم Ú©Û’ نزدیک روØ* Ú©Ùˆ ایک دوسرا جسم عطاکیا جاتا ہے اس Ú©Ùˆ جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ یہی جسم مثالی روØ* Ú©Û’ لیے اثرات Ú©Û’ وصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ جسم مثالی Ú©ÛŒ توضیØ* ایک اور اشکال (سوال) Ú©Ùˆ Ø*Ù„ کردیتی ہے۔ وہ اشکال یہ ہے کہ کئی واقعات ملتے ہیں جن میں Ø*الت بیداری میں لوگوں Ù†Û’ کسی بزرگ، شہید وغیرہ Ú©ÛŒ زیارت کی۔ روØ* تو اس عالم میں آ نہیں سکتی کہ اس کا مقام عالم برزخ ہے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ پھر زیارت کرنے والے Ù†Û’ کس Ú©Ùˆ دیکھا؟ اہل علم Ù†Û’ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہ زیارت جسم مثالی Ú©ÛŒ ہوتی ہے نہ کہ جسم Ø*قیقی Ú©ÛŒ اور نہ ہی روØ* کی۔ جسم مثالی میں تعدد (ایک سے زیادہ ہونا) ہونے کا امکان بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس Ú©ÛŒ مثال ٹیلی ویژن Ú©ÛŒ ہے جس میں ایک شخص اسٹودیو میں بیٹھا ہوتا ہے اور Ú©ÛŒ شبیہ پورے عالم میں نظر آرہی ہوتی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
    ان نکات Ú©Ùˆ سمجھ لینے Ú©Û’ بعد اب تسکین الخواطر کا یہ اقتباس پڑھیے اس طویل اقتباس Ú©Ùˆ Ù…Ø*ض سہولت Ø*والہ Ú©ÛŒ خاطر نمبر وار لکھا گیا ہے۔
    1) Ø*ضور ï·º کیلئے جو لفظ Ø*اضر Ùˆ ناضر بولا جاتا ہے اس Ú©Û’ یہ معنی ہرگز نہیں کہ نبی کریم ï·º Ú©ÛŒ بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک Ú©Û’ سامنے موجود ہے بلکہ اس Ú©Û’ معنی یہ ہیں کہ جس طرØ* روØ* اپنے بدن Ú©Û’ ہر جز میں موجود ہوتی ہے اسی طرØ* روØ* دو عالم ï·º Ú©ÛŒ Ø*قیقت منورہ ذرات عالم Ú©Û’ ہر ذرہ میں جاری Ùˆ ساری ہے
    2) جس Ú©ÛŒ بنا پر Ø*ضور ï·º اپنی روØ*انیت اور نورانیت Ú©Û’ ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر بھی تشریف فرما ہوتے ہیں
    3) اور اہل اللہ اکثر Ùˆ بیشتر بØ*الت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے Ø*ضور Ú©Û’ جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور Ø*ضور ï·º بھی انھیں اپنی نظر رØ*مت سے مسرور Ùˆ Ù…Ø*فوظ فرماتے ہیں۔
    4) گویا Ø*ضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے غلاموں Ú©Û’ سامنے ہونا سرکار Ú©Û’ Ø*اضر ہونے Ú©Û’ معنی ہیں اور انھیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا Ø*ضور Ú©Û’ ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔‘‘ (ص: 17)
    یہ عبارت اس مسئلے میں بہت اہم بلکہ Ø*تمی ہے اور اس مسئلے Ú©Ùˆ بالکل بے غبار کردیتی ہے۔ مندرجہ ذیل باتیں اس عبارت سے واضØ* ہوتی ہیں:
    · Ø*اضر Ùˆ ناظر بزرگان دین کا Ø*الت بیداری میں آپ ï·º Ú©ÛŒ زیارت فرمانے کا عنوان ہے۔نکتہ 3 اور 4Û”
    · رسول اللہ ﷺ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود نہیں ہیں۔ (نکتہ 1)
    · یہ Ø*اضر Ùˆ ناظرہ ہونا بھی ہروقت اور ہر Ù„Ø*ظہ نہیں ہے۔
    نکتہ 2 کے الفاظ دوبارہ پیش خدمت ہیں، ان کو غور سے پڑھیں:
    ’’Ø*ضور ï·º اپنی روØ*انیت اور نورانیت Ú©Û’ ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر بھی تشریف فرما ہوتے ہیں۔‘‘
    اب صفØ*ہ 90 Ú©ÛŒ یہ عبارت پڑھیں:
    5) ’’مقامات کثیرہ اور امکنہ متعددہ میں Ø*ضور ï·º کا تشریف فرما ہونا نہ صرف ممکن بلکہ امر واقع ہے۔‘‘
    · ان عبارات (2 اور 5) کا واضØ* مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ جسم مثالی Ú©ÛŒ زیارت متعدد مقامات (نہ کہ ہر مقام) پر ایک ہی وقت میں ہو سکتی ہے لیکن یہ نہیں کہ ہر وقت ہر مقام پر آپ ï·º جسم مثالی سے موجود ہیں۔ اس زیارت کا ہونا کبھی کبھار ہے اور مشیت الٰہی پر موقوف ہے۔
    آپ ﷺ کا اہل عرفان اور اہل بصیرت کو اپنی زیارت سے مشرف فرمانا زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے۔
    رسول اللہ ï·º کا خواب میں کسی Ú©Ùˆ نظر آجانا یہ معروف بات ہے لیکن Ø*اضر Ùˆ ناظر Ø*الت بیداری میں آپ ï·º Ú©ÛŒ زیارت کا عنوان ہے۔ Ø*الت بیداری میں آپ ï·º کا دیدار کرنا عین ممکن ہے، اس بات Ú©ÛŒ تائید میں Ø*ضرت کاظمیؒ دیگر Ø*والوں Ú©Û’ علاوہ صفØ*ہ 125 پر مشہور دیوبندی عالم انور شاہ کشمیریؒ Ú©ÛŒ تØ*ریر نقل فرماتے ہیں:
    6) ’’میرے نزدیک رسول اللہ ï·º کا جاگتے ہوئے بیداری Ú©ÛŒ Ø*الت میں رسول اللہ ï·º Ú©Ùˆ دیکھنا ممکن ہے جس Ú©Ùˆ اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے۔‘‘
    آپ ï·º کا Ø*اضر Ùˆ ناظر ہونا بشری یعنی جسم اقدس Ú©Û’ ساتھ نہیں بلکہ روØ*انی اعتبار سےہے جس Ú©ÛŒ توضیØ* جسم مثالی سے Ú©ÛŒ جاتی ہے۔ دیکھیے عبارت 2Û”
    اس بات Ú©Ùˆ صفØ*ہ 160 پر Ø*ضرت مولانا یوں فرماتے ہیں:
    7) ’’ہم Ø*ضور ï·º Ú©Ùˆ بشریت مقدسہ Ú©Û’ ساتھ ہرگز Ø*اضر وناظر تسلیم نہیں کرتے بلکہ Ø*ضور Ú©ÛŒ نورانیت Ùˆ روØ*انیت اور Ø*قیقت مبارکہ Ú©Û’ ساتھ Ø*ضور Ú©Ùˆ Ø*اضر وناظر مانتے ہیں۔‘‘ (ص:160)
    اسی بات Ú©Ùˆ صفØ*ہ 172پر مزید وضاØ*ت Ú©Û’ ساتھ تØ*ریر فرماتے ہیں:
    8) ’’قبر شریف میں Ø*ضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ Ú©Û’ ساتھ رونق افروز ہیں اور ظاہر ہے کہ بشریت ایک Ù…Ø*دود چیز ہے۔ اگرچہ Ø*ضور ï·º Ú©ÛŒ روØ*انیت اور نورانیت تمام عالم میں موجود ہے لیکن جب تک اس Ú©ÛŒ صØ*ÛŒØ* معرفت Ú©Û’ بعد قرب روØ*انی Ø*اصل نہ ہو اس وقت تک کوئی شخص اس روØ*انیت مقدسہ Ú©Û’ Ø*اضر وناظر ہونے کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
    رسول اللہ ï·º کا جسم مبارک قبر شریف میں موجود ہے۔ لہذا جن Ú©Ùˆ Ø*الت بیداری میں رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ زیارت ہوتی ہے وہ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ جسد اقدس Ú©Ùˆ نہیں دیکھتے بلکہ یہ زیارت جسم مثالی Ú©ÛŒ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ تعدد (کثرت) کا امکان جسم مثالی Ú©Û’ ساتھ تو ہوسکتا ہے جسم عنصری (مادی) Ú©Û’ ساتھ ممکن نہیں اس لیے کہ جسم عنصری Ù…Ø*دود ہے جس Ú©ÛŒ طرف مولانا کاظمیؒ Ù†Û’ ان الفاظ سے کیا ہے:
    ’’قبر شریف میں Ø*ضورﷺ اپنی بشریت مطہرہ Ú©Û’ ساتھ رونق افروز ہیں اور ظاہر ہے کہ بشریت ایک Ù…Ø*دود چیز ہے۔‘‘
    جب بشریت Ù…Ø*دود چیز ہے تو وہ ذات ایک مقام پر ہوگی نہ کہ ہر مقام پر۔ اگر کوئی جسم عنصری (مادی بدن) میں کثرت مانے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسا شخص آپ ï·º جیسی کئی شخصیات کا قائل ہے اور یہ بلاشک کفر ہے۔
    یہ مقام (یعنی رسول اللہ ï·º کا Ø*اضر Ùˆ ناظر ہونا) ہر ایک Ú©Û’ لیے نہیں بلکہ یہ خاص اہل اللہ کا مقام ہے۔ نکتہ 8Ú©ÛŒ عبارت پیش خدمت ہے:
    ’’جب تک اس Ú©ÛŒ صØ*ÛŒØ* معرفت Ú©Û’ بعد قرب روØ*انی Ø*اصل نہ ہو اس وقت تک کوئی شخص اس روØ*انیت مقدسہ Ú©Û’ Ø*اضر وناظر ہونے کا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘
    علامہ کاظمیؒ Ù†Û’ تسکین الخواطر میں ان Ø*ضرات Ú©Û’ لیے جن Ú©Ùˆ یہ مقام Ø*اصل ہے، اہل عرفان، اصØ*اب نظر Ùˆ برہان، اہل بصیرت، کاملین جیسے لفظ استعمال کیے ہیں۔
    مولانا کاظمیؒ صفØ*ہ 154 پر تفسیر روØ* المعانی Ú©Û’ Ø*والے سے بیان کرتے ہیں:
    9) ’’میری (صاØ*ب روØ* المعانی )غایت (آخری) گفتگو یہ ہے کہ یہ رویت (دیکھنا) جو صوفیہ Ú©Û’ لئے واقع ہوئی یہ معجزات انبیاء اور کرامات اولیاء Ú©ÛŒ طرØ* خوارق عادت سے ہے۔‘‘
    بیداری میں آپ ﷺ کی زیارت اہل اللہ کی کرامت ہے۔
    اسی کتاب Ú©Û’ صفØ*ہ 20 Ú©ÛŒ عبارت ہے:
    10) ’’بندے Ú©Ùˆ کسی امر میں اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ مشیت جزئیہ Ú©Û’ ما تØ*ت نہ سمجھنا یا اس Ú©Ùˆ کسی Ø*ال میں کسی اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے مستغنی اور بے نیاز قرار دینا شرک جلی اور کفر خالص ہے۔‘‘
    صفØ*ہ 17 پر تØ*ریر فرماتے ہیں:
    11) ’’یاد رکھئے اللہ تعالیٰ جو کسی مخلوق Ú©Ùˆ کوئی کمال عطا کرتا ہے تو اس Ú©Û’ متعلق صرف یہ اعتقاد مومن ہونے Ú©Û’ لئے کافی نہیں کہ یہ کمال اللہ کا دیا ہوا ہے۔ اتنی بات تو مشرکین بھی اپنے معبودوں Ú©Û’ Ø*Ù‚ میں تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ مومن ہونے Ú©Û’ لئے ضروری ہے کہ عطائے خداوندی کا عقیدہ رکھتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ جو کمال کسی مخلوق Ú©Ùˆ عطا فرمایا ہے وہ عطا Ú©Û’ بعد Ø*Ú©Ù… خداوندی ارادہ اور مشیت ایزدی Ú©Û’ ماتØ*ت ہے۔ ہر آن خداوند تعالیٰ Ú©ÛŒ مشیت اس Ú©Û’ ساتھ متعلق ہے، اور اس بندے کا ایک آن Ú©Û’ لئے بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز اور مستغنی ہونا قطعا Ù…Ø*ال اور ممتنع بالذات ہے۔‘‘
    دسویں اور گیارہویں عبارت کا مطلب یہ ہے کہ انبیائے کرام Ú©Û’ معجزے اور اولیائے کرام Ú©ÛŒ کرامتیں سب کا معاملہ Ù…Ø*ض اللہ Ú©ÛŒ مرضی اور مشیت پر مبنی ہے۔ اس Ú©Û’ برخلاف عقیدہ رکھنا بقول Ø*ضرت کاظمیؒ کھلا شرک اور خالص کفر ہے۔
    تسکین الخواطر Ú©ÛŒ جو عبارت شروع میں پیش Ú©ÛŒ گئی ہے اس میں نکتہ نمبر 1میں Ø*ضرت کاظمیؒ Ù†Û’ تØ*ریر فرمایا ہے:
    ’’روØ* دو عالم ï·º Ú©ÛŒ Ø*قیقت منورہ ذرات عالم Ú©Û’ ہر ذرہ میں جاری Ùˆ ساری ہے۔‘‘
    اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام عالم میں آپ ï·º کا فیض جاری Ùˆ ساری ہے، جیسا کہ صفØ*ہ173 Ø*ضرتؒ لکھتے ہیں:
    ’’جس طرØ* میری Ø*یات ظاہری میں میرے بارگاہ میں Ø*اضر ہونے والا کبھی Ù…Ø*روم نہیں ہوا بالکل اسی طرØ* بعد الوصال بھی میرا فیض جاری ہے۔‘‘
    اس Ú©ÛŒ وضاØ*ت ایک اور جگہ یوں Ú©ÛŒ ہے:
    ’’مسلمانوں کیلئے اس طور پر کہ دنیاوی زندگی میں وہ ہمارے ہادی و رہبر اور آخرت میں ہمارے شفیع ہیں۔‘‘
    کافروں کیلئے آپﷺ رØ*مت یوں ہے کہ آپ ï·ºÚ©Û’ لائے ہوئے دین Ú©Ùˆ قبول کر Ú©Û’ وہ بھی اپنی دنیا اور آخرت Ú©Ùˆ سنوار سکتے ہے۔
    امید ہے کہ Ø*ضرت علامہ Ú©ÛŒ تØ*ریروں روشنی میں اس مسئلے Ú©ÛŒ وضاØ*ت ہوگئی ہوگی لیکن یہ Ø*قیقت ہے کہ ناواقفیت Ú©ÛŒ وجہ اس مسئلے میں غلو کیا جاتا ہے اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن Ùˆ Ø*دیث سے بھی اس مسئلے Ú©ÛŒ وضاØ*ت کردی جائے۔
    اس سلسلے میں قرآنی آیات پیش خدمت ہیں:
    آیت 1
    ÙˆÚ¾Ùˆ معکم اینما کنتم (الØ*دید: 4)
    ترجمہ: کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو
    یعنی اللہ تعالیٰ ہر جگہ تمہارے ساتھ ہے، یہ اللہ Ú©Û’ Ø*اضر ہونے دلیل ہے۔
    آیت 2
    لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ فی السمٰوات ولا فی الارض (سبا: 3)
    ترجمہ: زمین و آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں
    یہ اللہ کے ناظر ہونے کی دلیل ہے۔
    سورۃ القصص میں رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    آیت 3
    و ما کنت بجانب الغربی اذ قضینا الٰی موسٰی الامر وما کنت من الشاہدین (القصص: 44)
    ترجمہ: اور جب ہم Ù†Û’ موسیٰ Ú©ÛŒ طرف Ø*Ú©Ù… بھیجا تو تم (طور Ú©Û’) مغرب Ú©ÛŒ طرف نہیں تھے اور نہ اس واقعے Ú©Û’ دیکھنے والوں میں تھے۔
    اس آیت Ú©ÛŒ تفسیر میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ یہ اس لیے فرمایا کہ آپ ï·º جبل طور Ú©Û’ مغرب Ú©ÛŒ طرف نہیں تھے اس Ú©Û’ باوجود آپ اس واقعے Ú©ÛŒ اطلاع دے رہے ہیں تو یہ یقینا ÙˆØ*ÛŒ ہی Ú©Û’ ذریعے سے آپ ï·º Ú©Ùˆ معلوم ہوا ہے۔
    اس آیت میں آپ ï·º کا شاہد نہ ہونا مذکور ہے۔ البتہ سورۃ اØ*زاب آیت 45میں آتا ہے:
    آیت 4
    یا ایہا النبی انا ارسلنک شاہدا ومبشرا ونذیرا
    اے نبی! ہم نے تم کو گواہی دینے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔
    آیت 5
    فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علٰی ھٰٓولائ شھیدا (النساء: 45)
    ترجمہ: اس وقت کیا Ø*ال ہوگا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ Ú©Ùˆ Ø*اضر کریں Ú¯Û’ اور آپ Ú©Ùˆ ان لوگوں پر گواہی دینے Ú©Û’ لیے Ø*اضر کریں Ú¯Û’Û”
    آیت 6
    و کذٰلک جعلنٰکم امۃ وسطا لتکونوا شھدآئ علٰی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا (البقرۃ: 143)
    ترجمہ: اور اسی طرØ* ہم Ù†Û’ تم Ú©Ùˆ امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں۔
    ان آیات میں آپ ï·º Ú©Ùˆ منصب شہادت (گواہی) پر نافذ فرمایا گیا ہے۔ ان آیات Ú©ÛŒ بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب آپ ï·º Ù¾Ú†Ú¾Ù„ÛŒ امتوں Ú©Û’ Ø*ال پر گواہ ہیں تو لازم ہے کہ آپ ï·º Ø*اضر Ùˆ ناظر ہوں اس لیے کہ گواہ Ú©Û’ لیے ضروری ہے کہ وہ موقع پر Ø*اضر ہو۔ لیکن اس طرØ* لازم ہوا کہ پوری امت Ù…Ø*مدیہ بھی Ø*اضر Ùˆ ناظر ہو اس لیے کہ سورۃ بقرۃ Ú©ÛŒ آیت 143(‏آیت 6) Ú©ÛŒ رو سے وہ بھی گواہی Ú©Û’ منصب پر فائز ہے۔ بات یہ کہ گواہی Ú©Û’ لیے موقع پر Ø*اضر ہونا شرط نہیں۔ گواہی علم Ú©ÛŒ بنیاد پر بھی دی جاسکتی ہے۔ مثلا آج کسی سے پوچھا جائے کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ Ú©Û’ متعلق تم کیا کہتے ہو تو وہ یہی کہے گا وہ اللہ Ú©Û’ بہت بڑے ولی تھے۔ اس کا یہ کہنا گواہی ہے جب کہ ظاہر ہے کہ اس Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ زیارت نہیں کی۔ اس Ú©ÛŒ گواہی Ú©ÛŒ بنیاد وہ علم ہے جو نسل در نسل قابل اعتبار ذریعوں منتقل ہوا ہے۔ کسی مسلمان Ù†Û’ اللہ تعالیٰ Ú©Ùˆ نہیں دیکھا اور نہ ہی صØ*ابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم Ú©Û’ علاوہ کسی Ú©Ùˆ رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ زیارت کا شرف Ø*اصل ہوا اس Ú©Û’ باوجود ایک مسلمان کا یہ کہنا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ÙˆØ*دہ لاشریک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ Ù…Ø*مد ï·º اس Ú©Û’ بندے اور رسول ہیں نہ صرف معتبر ہے بلکہ اس Ú©ÛŒ نجات Ú©Û’ لیے کافی ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
    اتنا واضØ* رہے کہ Ø*اضر Ùˆ ناظر کا لفظ قرآن Ùˆ Ø*دیث میں نہ آپ ï·º Ú©Û’ لئے بطور صفت Ùˆ لقب بولا گیا ہے اور نہ ہی یہ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ اسماء Ø*سنیٰ میں شامل ہے۔ البتہ اوپر جو آیتیں پیش Ú©ÛŒ گئی ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم سے ہر وقت ہر جگہ موجود ہے اور اس Ú©Û’ اØ*اطہ علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں یعنی اللہ رب العزت ’’Ø*اضر Ùˆ ناظر‘‘ ہیں۔
    اس سلسلے میں دو Ø*دیثوں کا ترجمہ پیش خدمت ہیں۔
    Ø*دیث 1
    Ø*ضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں Ù†Û’ رسول اللہ ï·º سے سنا جب قریش Ù†Û’ (واقع معراج میں)میرا انکار کیا تو میں Ø*طیم میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ بیت المقدس Ú©Ùˆ میری نظروں Ú©Û’ سامنے کر دیا اور میں دیکھ دیکھ کر بیت المقدس Ú©ÛŒ علامات قریش Ú©Ùˆ بتلانے لگا۔ (بخاری Ùˆ مسلم)
    اس Ø*دیث سے یہ بات واضØ* ہے کہ Ø*یات مبارکہ میں بھی آپ ï·º ہر جگہ اور ہر مقام پر ہر وقت موجود نہ ہوتے تھے اور نہ ہی ہر مقام ہر وقت آپ ï·ºÚ©Û’ سامنے ہوتا تھا۔ اگر سامنے ہوتا یا آپ ï·º ہر وقت ہر مقام پر موجود ہوتے تو قریش Ú©Û’ سوالات پر آپ ï·º Ú©Ùˆ پریشانی نہ ہوتی۔ البتہ جب اللہ تعالیٰ Ù†Û’ پردہ ہٹا دیا تو آپ ï·º Ù†Û’ قریش Ú©Û’ سوالات کا جواب دے دیا۔
    Ø*دیث 2
    آپ ï·º فرماتے ہیں آخرت میں Ø*وض کوثر پر میرے پاس Ú©Ú†Ú¾ جماعتیں آئیں Ú¯ÛŒ میں ان Ú©Ùˆ پہچان لو Úº گا اور وہ مجھے پہچان لیں Ú¯Û’ØŒ پھر ان Ú©Û’ اور میرے درمیان پردہ Ø*ائل ہو جائے گا میں کہوں گا یہ تو میری امت Ú©Û’ لوگ ہیں مجھ سے کہا جائے گا آپ نہیں جانتے کہ انہوں Ù†Û’ آپ Ú©Û’ بعد دین میں نئی نئی باتیں پیدا کیں پس میں کہوں گا دور ہو جائے دور ہو جائے وہ شخص جس Ù†Û’ میرے بعد دین Ú©Ùˆ بدل ڈالا۔ (بخاری)
    پہلی Ø*دیث آپ صلی اللہ علیہ Ú©ÛŒ دنیاوی Ø*یات Ú©Û’ ایک واقعے سے متعلق ہے۔ یہ Ø*دیث اس بات Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتی ہے کہ آپ ï·º Ú©Ùˆ عالم برزخ میں رہتے ہوئے اس دنیا Ú©Û’ تمام واقعات کا علم نہیں ہوتا اسی عدم علم Ú©ÛŒ وجہ سے آپ ï·º ان لوگوں Ú©Ùˆ Ø*وض کوثر سے پانی پلانے Ù„Ú¯Û’ لیکن جب ان Ú©Û’ اØ*وال سے آگہی ہوئی تو انہیں دھتکار دیا۔
    Ø*اصل کلام یہ ہے کہ Ø*اضر Ùˆ ناظر کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ رسول اللہ ï·º ہر وقت ہر جگہ ØŒ ہرمجلس، ہر Ù…Ø*فل میں بنفس نفیس موجود ہوتے ہیں۔ یہ دراصل اہل اللہ کا Ø*الت بیداری میں رسول اللہ ï·º Ú©ÛŒ زیارت کا نام ہے۔ یہ زیارت بھی جسم اقدس Ú©ÛŒ نہیں بلکہ آپ ï·º Ú©Û’ جسم مثالی Ú©ÛŒ ہوتی ہے۔ یہ زیارت بھی ہر ایک Ú©Ùˆ Ø*اصل نہیں ہوتی بلکہ یہ خاص الخاص اہل اللہ کا مقام ہے۔ نہ ہی یہ زیارت ان اہل اللہ کا کوئی اختیار فعل ہے بلکہ یہ Ù…Ø*ض اللہ رب العزت کا ان Ú©Û’ ساتھ خصوصی معاملہ ہے۔ ہر جگہ ہر وقت موجود ہونا تو اللہ رب العزت Ú©Û’ ساتھ خاص ہے۔ کسی مخلوق Ú©Ùˆ ہرجگہ ہر وقت موجود سمجھنا شرک ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اپنی ذات میں بھی ÙˆØ*دہ لاشریک ہے بلکہ اس Ú©ÛŒ صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں توØ*ید کا یہی پہلو ہے جس میں انسان خطا کرجاتا ہے۔ اللہ Ú©Ùˆ اپنی ذات میں یکتا تو Ù¾Ú©Û’ مشرک بھی مانتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔





  2. #2
    Nov 2014
    G-9/2,Islamabad.
    231


    جزاک اللہ خیر
    بہت ہی اہم اور مفید دینی معلومات ہمارے ساتھ شئیر کی ہے
    اللہ اپ کو اس کا بہترین اجراعظیم عطا فرمائیں
    امین ثمہ امین




 

 

Thread Information

Users Browsing this Thread

There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

Bookmarks

  •