تمہید
مسئلہ علم غیب Ú©Ùˆ سمجھنے چند باتوں کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے جس Ú©Û’ بعد اس مسئلے Ú©Ùˆ سمجھنے میں کسی طرØ* Ú©ÛŒ پیچیدگی باقی نہیں رہتی۔ آئیے سب سے پہلے ان بنیادی باتوں Ú©Ùˆ جان لیتے ہیں اس Ú©Û’ بعد اس مسئلے Ú©ÛŒ Ø*قیقت Ú©Ùˆ سمجھتے ہیں۔
علم Ø*اصل کرنے Ú©Û’ مختلف ذرائع
علم Ø*اصل کرنے Ú©Û’ مختلف ذرائع یا واسطے ہیں۔ جیسے Ø*واس یعنی دیکھنے Ú©ÛŒ Ø*س، سننے Ú©ÛŒ Ø*س، سونگھنے Ú©ÛŒ Ø*س، Ú†Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©ÛŒ Ø*س، چھونے Ú©ÛŒ Ø*س۔ ان Ú©Û’ ذریعے انسان Ú©Ùˆ ظاہری چیزوں کا علم Ø*اصل ہوتا ہے۔ علم Ø*اصل کرنے کا ایک اور ذریعہ انسان Ú©ÛŒ ذہنی، عقلی Ùˆ فکری صلاØ*یتیں ہیں۔ جیسے کسی Ú©ÛŒ ظاہری Ø*الت Ú©Ùˆ دیکھ کر اس Ú©ÛŒ قلبی Ø*الت کا اندازہ کرلینا۔ یہ ہمارے پانچ ظاہری Ø*واس سے باہر Ú©ÛŒ چیز ہے۔ اس کا بڑا تعلق انسان Ú©ÛŒ ذہنی صلاØ*یت سے ہوتا ہے۔ علم Ø*اصل کرنے کا اور ایک ذریعہ استدلال ہے۔ اس Ú©ÛŒ مثال چاند گرہن اور سورج گرہن Ú©Û’ Ø*سابات ہیں۔ اتنا اور جان لیجیے کہ علم Ø*اصل کرنے Ú©Û’ یہ ذرائع اسباب، وسائل اور واسطوں Ú©Û’ Ù…Ø*تاج ہوتے ہیں۔ ہر انسان Ú©Ùˆ یہ صلاØ*یتیں Ú©Ù… Ùˆ زیادہ Ø*اصل ہوتی ہیں۔ البتہ انبیا علیہم السلام اور اولیائے کرام میں ذہنی Ùˆ فکری صلاØ*یتیں عام انسانوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔ Ø*دیث شریف میں آتا ہے:
اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ۔
ترجمہ: مومن کی فراست سے ڈرو وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
اسی لیے وہ بہت سے امور جن Ú©Ùˆ کرامت کہہ دیا جاتا ہے دراصل ان کا تعلق اس گہری فراست سے ہوتا جو ان Ø*ضرات Ú©Ùˆ عطا Ú©ÛŒ جاتی ہے۔
علم Ú©Û’ ذرائع سے آگہی سے یہ بات واضØ* ہو جاتی ہے کہ وہ تمام علوم جن Ú©ÛŒ بنیاد پر Ú©Ú†Ú¾ پوشیدہ باتوں کا پتہ لگا لیا جاتا ہے وہ غیب قطعی نہیں کیونکہ یہ تمام علوم واسطوں اور ذریعوں Ú©Û’ Ù…Ø*تاج ہیں۔ مثلا الٹراساؤنڈ سے بچے Ú©ÛŒ جنس بتا دینا غیب نہیں کیونکہ اس کا انØ*صار آلات پر ہے۔

علم الغیب کی تعریف
علم Ø*اصل کرنے Ú©Û’ ذرائع جان لینے بعد یہ سمجھ لیجیے کہ علم غیب وہ ہے جو ظاہری Ø*واس، ذہنی صلاØ*یتوں اور استدلال سے مخفی ہو۔ یعنی نہ ظاہری Ø*واس، نہ ذہنی Ùˆ فکری صلاØ*یتیں، اور نہ ہی استدلال Ú©Û’ ذریعے Ø*اصل ہو سکتا ہے کیونکہ یہ تمام Ú©Û’ تمام ذریعوں اور واسطوں Ú©Û’ Ù…Ø*تاج ہوتے ہیں۔ یہ ذرائع علم غیب Ú©Û’ لیے ناکافی ہیں۔ مثلا جنت Ùˆ جہنم Ú©Û’ اØ*وال کسی طور بھی اوپر بیان کیے گئے ذرائع سے Ø*اصل نہیں ہو سکتے۔ علم الغیب کا یہ امتیازی وصف اگر کسی پر صادق آتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ ذات ہے اور بس۔ وہی ایک ذات ایسی ہے جو وسائل اور واسطوں سے بالا اور بلند ہے۔ وہ نہ Ø*واس کا Ù…Ø*تاج ہے، نہ فکری، ذہنی صلاØ*یتوں کا اور نہ ہی اس Ú©Ùˆ کسی استدلال Ú©ÛŒ ضرورت ہے۔ بلکہ وہ بغیر ان تمام ذریعوں Ú©Û’ ذرہ ذرہ ØŒ پتہ پتہ اور قطرہ قطرہ سے خود بخود ہر وقت اور ہر دم آگاہ ہے۔ مخلوق میں سے کسی Ú©Ùˆ یہ وصف کسی Ú©Ùˆ بھی Ø*اصل نہیں ہے۔ کسی Ú©Û’ متعلق ایسا عقیدہ شرک ہے۔
اس مسئلہ کو مزید اجاگر کرنے کے لیے دو بنیادی باتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ وہ بنیادی باتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا علم
اللہ تعالیٰ Ú©Û’ علم بارے میں یہ بات سمجھنے Ú©ÛŒ ہے کہ علم اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ قرآن کریم میں جابجا اپنی صفت علم Ú©Û’ بارے میں کہیں علیم فرمایا ہے اور کہیں عالم الغیب والشہادۃ فرمایا ہے جس کا مفہوم یوں بیان کیا جاتا ہے: تمام ظاہری Ùˆ باطنی، لا Ù…Ø*دود اور لامتناہی صفت قدیم Ú©Û’ ساتھ (دائماًابداً) بالذات اØ*اطہ کرنے والی ذات اقدس۔ اس Ú©ÛŒ تفصیل یوں ہے:
· صرف اللہ تعالیٰ ہی Ú©ÛŒ ذات تمام علوم کا اØ*اطہ کرنے والی یعنی جاننے والی ہے Û”
· تمام ظاہری Ùˆ باطنی علوم ØŒ لا Ù…Ø*دود اور لامتناہی، یعنی اس Ú©Û’ علم Ú©ÛŒ نہ کوئی Ø*د ہے نہ نہایت،
· اس کا علم ہمیشہ ہمیشہ سے ہے یعنی ایسا نہیں کہ وہ پہلے کسی چیز کو نہیں جانتا تھا اور اب جاننے لگا ہے، بلکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ سے ہر چیز کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے بھی، اس کی زندگی میں بھی اور اس کے مرنے کے بعد بھی اپنے علم تفصیلی سے جانتا ہے،
· بالذات یعنی اس کا یہ علم اس کا ذاتی ہے کسی نے اس کو سکھایا نہیں ہے،
ان معنوں میں علم؛ اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ خاص صفت ہے جس میں اس کا کوئی بھی شریک نہیں۔ اہل سنت Ùˆ الجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ Ú©Û’ علاوہ کسی Ú©Û’ لیے بھی اس طرØ* علم ماننا شرک Ùˆ کفر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

آیت 1
Ùˆ عندہ مفاتØ* الغیب لا یعلمھا الا Ú¾Ùˆ (الانعام: 59)
ترجمہ: اور اللہ ہی کے پاس ہیں خزانے تمام مخفی اشیاء کے۔ ان کو کوئی نہیں جانتا سوائے اس (اللہ تعالیٰ) کے۔
رسول اللہ ï·º Ú©Ùˆ Ø*Ú©Ù… دیا جارہا ہے:

آیت 2
قل لا یعلم من فی السمٰوات و الارض الغیب الا اللہ و ما یشعرون ایان یبعثون (نمل 65)
ترجمہ: آپ فرما دیں کہ آسمان و زمین میں جتنے لوگ ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے انہیں تو یہ بھی خبر نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔
آیت 3
ان اللہ عندہ علم الساعۃ Ùˆ ینزل الغیث Ùˆ یعلم ما فی الارØ*ام Ùˆ ما تدری نفس ماذا تکسب غدا Ùˆ ما تدری نفس بای ارض تموت ان اللٰہ علیم خبیر (لقمان: 34)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی مینہ برساتا ہے وہی پیٹ کے بچے کو جانتا ہے کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا کمائے گا اور نہ یہ کہ کس زمین پر اس کی موت آئے گی۔ بے شک اللہ ہی جانے والا خبردار ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت علم کے بارے میں کہیں علیم فرمایا ہے اور کہیں عالم الغیب والشہادۃ۔

انبیا علیہم السلام کا علم
انبیاء علیہم السلام جو اللہ تعالیٰ Ú©Û’ خاص بندے ہیں علم Ú©Û’ باب میں ان کا خصوصی مقام ہے۔ انبیا علیہم السلام Ú©Û’ علم بارے میں اہل سنت Ùˆ الجماعت کا مسلک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ Ù†Û’ اپنے ان خاص بندوں Ú©Ùˆ بے شمار علوم عطا کیے ہے جن کا اØ*اطہ کرنا عام انسانوں Ú©Û’ بس Ú©ÛŒ بات نہیں ہے۔ خاص طور پر خاتم الانبیا ï·º Ú©Û’ بØ*ر علم Ú©Û’ کنارے تک پہنچنا دیگر انبیائے کرامؑ Ú©Û’ لیے بھی ممکن نہیں Û” لیکن ان کا علم،
· لامتناہی (لامØ*دود) نہیں بلکہ Ù…Ø*دود ہے۔
· اللہ کی عطا سے ہے، بالذات (خود بخود) نہیں۔
· ان کا علم اللہ Ú©ÛŒ مرضی پر موقوف ہے۔ بغیر مشیت (مرضی) Ú©Û’ نہیں یعنی یہ نہیں کہ جب چاہا جان لیا بلکہ جب اللہ تعالیٰ Ù†Û’ چاہا ان Ú©Ùˆ علم Ø*اصل ہوا۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

آیت 4
عالم الغیب فلا یظہر علٰی غیبہ اØ*د ا الا من ارتضٰی من رسول (الجن: 26)
ترجمہ: وہی غیب کا جاننے والا ہے، وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ ہاں جس رسول کو پسند فرمائے (اس کو اطلاع دیتا ہے)۔
اور اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

آیت 5
وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولٰکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشاء۔ (آل عمران: 179 )
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ غیبی امو ر پر تم کو مطلع نہیں کرتے لیکن ہاں جس کو وہ خود چاہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ان کو وہ منتخب فرما لیتے ہیں۔
معراج کے واقعہ کے سلسلے میں آتا ہے:

Ø*دیث 1
عن جابر سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول لما كذبتني قريش قمت في الØ*جر فجلى الله لي بيت المقدس فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر اليه
ترجمہ: (معراج Ú©Û’ واقعہ Ú©Û’ سلسلے میں قریش Ù†Û’) مجھ Ú©Ùˆ جھٹلایا تو میں Ø*طیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ Ù†Û’ میرے لئے بیت المقدس Ú©Ùˆ روشن کر دیا اور میں Ù†Û’ اسے دیکھ کر قریش سے اس Ú©Û’ پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے
یعنی اللہ تعالیٰ کے بتانے سے جانا۔

· ان کا یہ وصف Ø*دوثاً ہے قدیماً نہیں، یعنی ہمیشہ سے نہیں بلکہ اللہ Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… سے ہے۔
لیکن اس علم میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

انبیاء علیہم السلام غیب پر مطلع ہیں؟
البتہ ایک بات غور طلب ہے کہ اوپر جو چار آیتیں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے ‏آیت 1 اور ‏آیت 2 سے یہ معلوم ہوا کہ غیب کی بات اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جب کہ ‏آیت 4 اور ‏آیت 5 سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انبیائے کرامؑ غیب پر مطلع ہیں۔
اب یہ اØ*ادیث ملاØ*ظہ فرمائیں۔

Ø*دیث 2
قال رسول اللہ ï·º لیردن علی اقوام اعرفھم Ùˆ یعرفوننی ثم ÛŒØ*ال بینی Ùˆ بینھم فا قول انھم منی فیقال انک لا تدری ما اØ*دثوا بعدک فاقول سØ*قا سØ*قا لمن غیر بعدی۔ (مشکٰوۃ صفØ*ہ۴۸۸-Û´Û¸Û·)
ترجمہ: میری طرف ایسے لوگ آئیں Ú¯Û’ جن Ú©Ùˆ میں پہچان لوں گا اور وہ مجھے پہچان لیں Ú¯Û’ پھر میرے اور ان Ú©Û’ درمیان Ø*جاب Ø*ائل ہو جائے گا۔ میں کہوں گا یہ میری امت Ú©Û’ لوگ ہیں Û” کہا جائے گا کہ آپ Ú©Ùˆ نہیں معلوم کہ انہوں Ù†Û’ آپ Ú©Û’ بعد دین میں کیا نئی نئی باتیں پیدا کیں ØŒ میں کہوں گا کہ (مجھ سے) دور ہو جائے دور ہو جائے وہ شخص جس Ù†Û’ میرے بعد دین میں تبدیلی کی۔
Ø*دیث 3
عن عمر رضی اللہ عنہ قال قام فینا رسول اللہ ï·º مقاما فاخبرنا عن بدء الخلق Ø*تی دخل اھل الجنۃ منا زلھم Ùˆ اھل النار منازلھم Ø*فظ ذالک من Ø*فظ ونسیہ من نسیہ۔ (صØ*ÛŒØ* البخاری )
ترجمہ: Ø*ضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مقام میں رسول اللہ ï·º ہم میں Ú©Ú¾Ú‘Û’ ہوئے اور ہم Ú©Ùˆ ابتدائے خلق سے خبر دی Ø*تی کہ اہل جنت Ú©Û’ اپنے منازل میں داخل ہونے اور اہل نار Ú©Û’ اپنے منازل میں داخل ہونے تک خبر دی۔ جس Ù†Û’ یاد رکھا اس Ù†Û’ یاد رکھا اور جو بھول گیا سو بھول گیا۔
‏Ø*دیث 2 میں آپ ï·º Ú©Û’ غیب جاننے Ú©ÛŒ نفی ہے جب کہ ‏Ø*دیث 3 سے معلوم ہوا کہ آپ ï·º ان غیوب Ú©Ùˆ جانتے تھے یعنی آپ ï·º کا غیب جاننا ثابت ہوتا ہے۔ اور بھی واقعات ہیں جن سے آپ ï·º Ú©Û’ غیب پر مطلع ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلا جنگ خندق Ú©Û’ دوران جب آپ ï·º Ù†Û’ چٹان توڑی تب آپ ï·º Ù†Û’ شام اور دوسرے ممالک Ú©Û’ فتØ* ہونے Ú©ÛŒ خبر دی جو بعد میں پوری ہوئی۔
اسی طرØ* واقعات انبیاؑ بھی دو طرØ* Ú©Û’ ہیں جن میں بعض واقعات ایسے ہیں جن سے انبیا Ú©Û’ غیب جاننے Ú©ÛŒ نفی ہوتی ہے۔ مثلا Ø*ضرت ابراہیم علیہ السلام Ú©Û’ پاس ملائکہ نوجوانوں Ú©ÛŒ Ø´Ú©Ù„ میں مہمان بن کر آئے۔ Ø*ضرت ابراہیم علیہ السلام ان Ú©Û’ سامنے جانور ذبØ* کر Ú©Û’ کھانا تیار کر Ú©Û’ لائے اور ان Ú©Û’ نہ کھانے پر خوف زدہ بھی ہوئے بعد میں ان Ú©Û’ بتانے سے معلوم ہوا کہ یہ فرشتے ہیں Û” یا Ø*ضرت یوسف علیہ السلام جب کنویں میں تھے تو Ø*ضرت یعقوب علیہ السلام Ú©Ùˆ علم نہیں تھا۔ لیکن جب مصر سے بھائی قمیص یوسف Ù„Û’ کر روانہ ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ میں یوسف Ú©ÛŒ خوشبو Ù…Ø*سوس کر رہا ہوں۔
خلاصہ یہ ہے کہ بعض آیتوں میں علم غیب کا اللہ تعالیٰ Ú©Û’ ساتھ خاص ہونا بیان کیا گیا ہے اور غیر اللہ سے نفی Ú©ÛŒ گئی ہے۔ اسی طرØ* بعض اØ*ادیث میں آپ ï·º Ú©Û’ غیوب پر مطلع ہونے کا بیان ہے اور بعض میں اس Ú©ÛŒ نفی ہے۔ اہل علم Ù†Û’ اس سلسلے میں جو Ú©Ú†Ú¾ فرمایا ہے اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ لیکن ایک بار پھر اس فرق Ú©Ùˆ ذہن نشین ہونا ضروری ہے جو اس مضمون Ú©Û’ شروع میں بیان کیا گیا ہے۔ سہولت Ú©Û’ لیے دوبارہ پیش خدمت ہے۔

· اللہ کا علم اس کی صفت ہے، ہمیشہ سے ہے، ذاتی ہے، لامتناہی ہے (کوئی انتہا نہیں )،
اس ذات جل جلالہ کے علاوہ جس کے پاس جو علم ہے،

· وہ اللہ Ú©ÛŒ عطا ہے ØŒ اس Ú©ÛŒ مشیت (مرضی) Ú©Û’ تØ*ت ہے یعنی کسی Ú©Û’ لیے ممکن نہیں کہ خود جان Ù„Û’ØŒ متناہی ہے۔ پہلے نہیں تھا بعد میں اللہ تعالیٰ Ú©Û’ تعلیم کرنے سے Ø*اصل ہوا۔
اگر یہ فرق سامنے رہیں تو وہ آیات یا اØ*ادیث جن میں علم الغیب اللہ خاص تعالیٰ Ú©Û’ بتایا گیاہے ان Ú©Ùˆ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ چنانچہ جن آیات Ùˆ اØ*ادیث میں علم الغیب خاص اللہ Ú©Û’ لیے بتایا ہے تو اس سے مراد اللہ رب العزت کا ذاتی، لامتناہی، ہمیشہ ہمیشہ ØŒ اور ہر چیز Ú©Ùˆ Ù…Ø*یط علم ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا اس صفت میں کوئی بھی شریک نہیں۔
اور جن آیات میں انبیا علیہم السلام اور آپ ï·º Ú©Û’ لیے غیب کا ثبوت ہے اس سے مراد اللہ Ú©ÛŒ مرضی Ú©Û’ تØ*ت، اس کا بخشا ہوا، Ù…Ø*دود علم مراد ہے۔ البتہ انبیائے کرام Ú©Û’ لیے یہ عطا Ùˆ اطلاع ایسی ہے کہ مخلوق میں اس کا کوئی برابر نہیں۔
اس کو مزید سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کریں کہ وہ آیتیں جو یہاں پیش کی گئیں ہیں اور قرآن پاک میں دیگر مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں اپنی صفت علم کا ذکر کیا ہے وہاں لفظ علم یا اس سے بنے ہوئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلاً دیکھیے ‏آیت 1 وہاں لفظ
لایعلمھا آیا ہے یا ‏آیت 3 وہاں لفظ علم آیا ہے۔ نیز جہاں جہاں مخلوق سے غیب کی نفی کا ذکر ہے (کہ مخلوق کے پاس علم غیب نہیں ہے) وہاں بھی لفظ علم یا اس سے بنے ہوئے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مثلًا یہ آیت دیکھیے جس میں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے اپنے لیے علم غیب کی نفی بیان کی گئی ہے۔

قل لا اقول لکم عندی خزآئن اللہ و لا اعلم الغیب (الانعام:50)
ترجمہ: (اے نبیؐ) کہہ دیجیے، میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب کا علم رکھتا ہوں۔​

آیت 6
قل لا املک لنفسی نفعا و لا ضرا ا لا ماشاء اللہ ولو کنت اعلم الغیب لا استکثرت من الخیر و ما مسنی السوء ان انا الا نذیر و بشیر لقوم یؤمنون۔ (سورہ اعراف ع ۲۳)
ترجمہ: (اے رسول) آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات Ú©Û’ لیے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ Ù†Û’ چاہا، اور اگرمیں غیب Ú©ÛŒ باتیں جانتا تو میں بہت سے منافع Ø*اصل کرلیا کرتا اور کوئی مضرت ہی مجھ Ú©Ùˆ واقع نہ ہوتی میں تو Ù…Ø*ض نذیر Ùˆ بشیر ہوں اس قوم Ú©Û’ لیے جو ایمان رکھتی ہے۔
یہاں رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے آپ ﷺ کے غیب نہ جاننے کا اقرار بغیر لفظ علم کے آیا ہے۔ یعنی
، اگر میں علم الغیب جانتا نہیں فرمایا بلکہ کہلوایا گیا : ولو کنت اعلم الغیب (اگر میں غیب جانتا)۔
البتہ جہاں مخلوق کی غیب سے آگہی کا ذکر ہے وہاں لفظ علم کے بجائے اطلاع و اظہار کے الفاظ استعمال ہوا ہے۔ اس مسئلے میں یہ انتہائی اہم نکتہ ہے۔ اس سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کے لیے علم غیب کی نفی فرمائی ہے اور اظہار علم اور اطلاع علم کا اثبات (ہونا) فرمایا ہے۔
اس بات پر بھی غور کیجیے کہ قرآن مجید میں عالم الغیب Ú©ÛŒ اصطلاØ* کا استعمال صرف ایک اللہ رب العزت ہی Ú©Û’ لیے فرمایا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ لقب اس ذات جل Ùˆ علا کا خاص وصف ہے جس Ú©ÛŒ وجہ سے اس کا اس قدر اہتمام کیا گیا ہے۔ اس Ú©Û’ علاوہ کسی Ú©Ùˆ بھی عالم الغیب تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ظاہر Ùˆ باہر چیزوں Ú©Û’ جاننے Ú©ÛŒ کسی سے نفی نہیں فرمائی یعنی یہ کہیں نہیں آیاکہ کوئی
عالم الشہادۃ نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اس بات کا بار بار اظہار فرمایا گیا ہے کہ کوئی عالم الغیب نہیں ہے۔
اسی طرØ* اØ*ادیث میں بھی ہے۔ پہلی Ø*دیث آپ ï·º Ú©Û’ غیب پر آگاہ ہونے Ú©ÛŒ دلیل ہے جب کہ دوسری Ø*دیث سے اس سے عدم آگہی کا اظہار ہوتا ہے۔ اوپر انبیائے کرام Ú©Û’ علم Ú©Û’ Ø*والے سے جو Ú©Ú†Ú¾ بیان کیا گیا ہے اگر اس Ú©Ùˆ سامنے رکھا جائے تو ان دونوں Ø*دیثوں میں جو ظاہری تعارض ہے وہ دور ہو جاتا ہے۔ جس غیب کا آپ
ï·º Ú©ÛŒ لیے ثبوت ہے اس سے Ù…Ø*دود غیب مراد ہے لامتناہی غیب Ùˆ علوم مراد نہیں۔ بعض غیب Ùˆ علوم مراد ہیں اور Ú©Ù„ غیب Ùˆ علوم نہیں، وہ غیوب مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ Ú©ÛŒ طرف سے عطا اور اطلاع Ú©Û’ طور پر ہیں۔ یہ عطا Ùˆ اطلاع Ø*Ù‚ تعا لیٰ Ú©ÛŒ مشیت (مرضی) پر ہے۔ نیز یہ عطا Ùˆ اطلاع Ø*دوثاً ہے قدیماً نہیں۔ نیز وہی علوم مراد ہیں جو آپ ï·º Ú©ÛŒ شان Ú©Û’ لائق ہوں۔ قرآن پاک میں رسول اللہ ï·º Ú©Û’ متعلق ارشاد ہے:
وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ ) یس:(69
ترجمہ: اور ہم نے نہیں سکھایا ان کو شعر کہنا اور نہ وہ ان کی شان کے لائق ہے۔
ما کان و ما یکون کا مطلب
مسئلہ علم الغیب میں بنیادی بØ*Ø« جملہ ما کان Ùˆ ما یکون Ú©Û’ متعلق ہے۔ ما کان کا معنی ہے جو ماضی میں واقع ہو چکا اور ما یکون Ú©Û’ معنی جو مستقبل میں واقع ہو گا یعنی ماضی Ùˆ مستقبل کا علم۔ یہ جملہ بظاہر Ø*دیث عمرؓ (‏Ø*دیث 1) کا عنوان ہے جس میں آپ ï·º Ù†Û’ ابتدائے کائنات سے Ù„Û’ کر جنت دوزخ میں داخلے تک Ú©ÛŒ خبر دی۔ البتہ بعض اوقات ما کان Ùˆ ما یکون کا استعمال Ú©Ù„ Ú©Û’ معنی میں کیا جاتا ہے۔ ما کان Ùˆ ما یکون Ú©Û’ اس مفہوم Ú©Ùˆ سامنے رکھا جائے تو یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ رسول ï·º تمام علوم غیب Ú©Ùˆ جانتے تھے۔ درØ*قیقت یہ غلط فہمی سے زیادہ نہیں۔ کیونکہ جو Ø*ضرات اس Ú©Ùˆ Ú©Ù„ Ú©Û’ معنی میں استعمال کرتے ہیں ان Ú©ÛŒ مراد بھی Ù…Ø*دود غیب ہی ہے۔ مشہور بریلوی عالم علامہ سید اØ*مد سعید کاظمی Ø’ Ù†Û’ مقالات کاظمی ج 2 ص 17 میں لکھا ہے:
’’یاد رکھیئے! جب آپ ہمارے کلام میں Ø*ضور ï·º Ú©Û’ علم اقدس Ú©Û’ متعلق لفظ ’’کل ‘‘ دیکھیں تو اس سے Ú©Ù„ غیر متناہی (لامØ*دود) نہ سمجھیں بلکہ Ú©Ù„ مخلوقات (جو متناہی ہے) اور اس Ú©Û’ علاوہ معرفت ذات Ùˆ صفات کا علم کہ وہ بھی بالفعل متناہی ہے ہماری مراد ہو گا۔ ورنہ علم الہٰی Ú©ÛŒ بہ نسبت Ø*ضور ï·º Ú©Û’ علم Ú©Ùˆ Ú©Ù„ نہیں کہتے۔ کیونکہ علم الہٰی Ù…Ø*یط الکل اور غیر متناہی ہے۔‘‘
اعلیØ*ضرت اØ*مد رضا خان بریلویؒ Ú©ÛŒ یہ عبارت ملاØ*ظہ ہو:
ہمارا یہ دعویٰ نہیں کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ Ùˆ سلم Ù†Û’ جمیع (تمام) معلومات الہیہ کا اØ*اطہ کر لیا کہ یہ تو مخلوق Ú©Û’ لیے Ù…Ø*ال ہے جیسا کہ ہم اوپر بیان کر آئے اور عنقریب ہم تم سے بیان کریں Ú¯Û’ کہ اللہ تعالیٰ کا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ Ùˆ سلم Ú©Ùˆ سکھانا بذریعہ قرآن عظیم ہوا اور قرآن تھوڑا تھوڑا کر Ú©Û’ اترا اور ہر وقت نہیں اترتا تھا تو اوقات اورمعلومات دونوں میں بعض ہونا صادق ہوا۔‘‘


( الدولۃ المکیہ،صفØ*ہ Û·Û² سے Û·Û´ تک، مطبوعہ مکتبہ رضویہ، کراچی)​
یعنی قرآن پاک آپ ﷺ پر تھوڑا تھوڑا نازل ہوا۔جو نازل ہوا علم میں آگیا اور جو نازل نہیں ہوا وہ غیب میں رہا۔
اعلیØ*ضرت اØ*مد رضا خان بریلویؒ Ú©Û’ Ø*والے سے یہ عبارت انوار رضا میں موجود ہے:
’’علم غیب بالذات اللہ عز Ùˆ جل Ú©Û’ لیے خاص ہے کفار اپنے معبودان باطل وغیرہم Ú©Û’ لیے مانتے تھے لہٰذا مخلوق Ú©Ùˆ عالم الغیب کہنا مکروہ اور یوں کوئی Ø*رج نہیں کہ اللہ تعالیٰ Ú©Û’ بتانے سے امور غیب پر انہیں اطلاع ہے۔‘‘ (انوار رضا، ص
56)
خلاصہ
خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم غیب اللہ رب العزت ہی Ú©Ùˆ ہے اس میں اس کوئی شریک نہیں اور علم الغیب Ú©Ù„ÛŒ یا ما کان Ùˆ ما یکون بھی صرف اسی Ú©Û’ قبضہ قدرت اور اختیار میں ہے۔ لیکن اس Ù†Û’ اپنے رسول ï·º اور دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام Ú©Ùˆ ÙˆØ*ÛŒ وغیرہ Ú©Û’ ذریعہ غیب Ú©ÛŒ ہزاروں، لاکھوں خبریں دی ہیں اور اولیائے کرام Ú©Ùˆ بھی کشف Ùˆ الہام وغیرہ Ú©Û’ ذریعے ایسی بہت سی چیزوں Ú©ÛŒ خبر ہو جاتی ہے۔ لیکن نہ یہ علم الغیب ہے اور نہ اس Ú©ÛŒ وجہ سے کسی Ú©Ùˆ عالم الغیب کہا جاسکتا ہے۔
گزارش
آخر میں اتنی گزارش ہے کہ مقام رسول ï·º ہماری آپ Ú©ÛŒ سوچ Ùˆ فہم سے بالاتر ہے۔ آپ ï·º Ú©Û’ اوصاف پر بØ*Ø« Ùˆ مباØ*ثہ کرنا اپنے ایمان Ú©Ùˆ خطرے میں ڈالنا ہے۔ مثلا علم رسول ï·º Ú©Ùˆ لیجیے۔ آپ ï·º Ú©Û’ علم Ú©ÛŒ کیفیت Ùˆ کمیت کسی Ú©ÛŒ سمجھ سے بالا ہے۔ اب جو اس لاعلمی Ú©Û’ باوجود اس پر رائے زنی کرے گا وہ دو طرØ* سے خطرے میں ہے۔ وہ یا تو علم رسول ï·º Ú©ÛŒ وسعت کا اس طرØ* اظہار کرے گا کہ علم الہی سے ملا بیٹھے گا۔ اور اس کا رد کرنے والا اس طرØ* رد کر بیٹھے گا کہ شان رسول ï·º Ú©Ùˆ گھٹا بیٹھے گا۔ دونوں ہی باتیں خطرہ ایمان ہے۔ اس لیے ایسی کسی بØ*Ø« میں Ø*صہ لینا اپنے ایمان Ú©Ùˆ خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس لیے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ اپنے ایمان Ú©Ùˆ بچائیں اور ایسے لوگوں سے دور بھاگیں جو اس طرØ* Ú©ÛŒ بØ*ثوں Ú©Ùˆ دین کا معیار بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اپنا مسلک بس یہ رکھیں: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ یہ اوصاف Ù…Ø*مدیہ علی صاØ*بہا الصلوٰۃ Ùˆ السلام Ú©Û’ لیے، مختصر اور جامع ترین بات ہے! واللہ تعالیٰ اعلم۔