چہرے پڑھتا، آنکھیں لکھتا رہتا ہوں
میں بھی کیسی باتیں لکھتا رہتا ہوں؟
سارے جسم درختوں جیسے لگتے ہیں
اور بانہوں کو شاخیں لکھتا رہتا ہوں
مجھ کو خط لکھنے کے تیور بھول گئے
آڑی ترچھی سطریں لکھتا رہتا ہوں
تیرے ہجر میں اور مجھے کیا کرنا ہے ؟
تیرے نام کتابیں لکھتا رہتا ہوں
تیری زلف کے سائے دھیان میں رہتے ہیں
میں صبØ*ÙˆÚº Ú©ÛŒ شامیں لکھتا رہتا ہوں
اپنے پیار کی پھول مہکتی راہوں میں
لوگوں کی دیواریں لکھتا رہتا ہوں
تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا
ہجر کی ساری باتیں لکھتا رہتا ہوں
سوکھے پھول، کتابیں، زخم جدائی کے
تیری سب سوغاتیں لکھتا رہتا ہوں
اس کی بھیگی پلکیں ہستی رہتی ہیں
Ù…Ø*سن جب تک غزلیں لکھتا رہتا ہوں