السلام علیکم، ایک دلچسپ موضوع کا آغاز کررہا ہوں۔ جہاں تک میری معلومات ہے اردو زبان میں اس طرØ* Ú©ÛŒ کوئی چیز دستیاب نہیں ہے۔ان شاء اللہ چند قسطوں میں ایک مکمل لائØ*ہ عمل پیش کروں گا جس کا مقصد آپ Ú©ÛŒ قوت فکر Ú©Ùˆ مہمیز لگانا ہے۔ Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بعد اپنی رائے سے ضرور نوازیے گا۔
ابتدائیہ

کہا جاتا ہے اعمالکم عمالکم یعنی جیسے اعمال ویسے Ø*کام۔ اسی طرØ* یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الناس علی دین ملوکھم یعنی لوگ اپنے Ø*اکم Ú©Û’ طرز پر چلتے ہیں۔ Ø*اکموں کا جو طرز عمل ہے اس سے ہمارے ٹاک شوز بھرے ہوئے ہیں۔ اور عام پاکستانیوں Ú©Û’ متعلق بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنے Ø*اکموں سے مختلف ہیں۔ ان دونوں باتوں Ú©Ùˆ سامنے رکھیں تو کسی طرØ* Ú©ÛŒ تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ اب بس قیامت کا انتظار رہ جاتا ہے۔ لیکن ان سب باتوں Ú©Û’ باوجود جو بات میری سمجھ میں آتی ہے کہ جو Ú©Ú†Ú¾ میں کرسکتا ہوں کر گزروں۔ اس لیے کہ رسول اللہ ï·º Ú©Û’ ایک ارشاد کا مفہوم ہے:
اگر (بالفرض) قیامت طاری ہوچکی ہو اور (اس وقت) تم میں سے کسی Ú©Û’ پاس کھجور کا پودا ہو (جس Ú©Ùˆ وہ لگانا چاہتا ہو) تو اگراس سے Ú©Û’ لیے ممکن ہو کہ اس Ú©Ùˆ لگا دے تو ایسا کر گزرے (مسند اØ*مد)
یعنی قیامت Ú©Û’ شروع ہونے Ú©Û’ باوجود نیک عمل سے مت رکو۔ اسی Ú©Ùˆ پیش نظر رکھتے ہوئے یہ ایک کوشش آپ Ú©Û’ سامنے ہے۔ نتیجہ اللہ Ú©Û’ Ø*والے!
اس کتابچے کا پس منظر
Ù¾Ú†Ú¾Ù„Û’ سال یعنی 2017Ø¡ میں امریکہ میں صدارتی انتخابات میں ڈانلڈ ٹرمپ Ú©ÛŒ کامیابی خود امریکیوں Ú©Û’ لیے غیر متوقع تھی۔ اس Ú©ÛŒ نااہلی روز روشن Ú©ÛŒ طرØ* عیاں تھی لیکن بہرØ*ال وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔ فکر رکھنے والے لوگ فورا Ø*رکت میں آئے اور اس Ú©Û’ Ø*والے سے بہت Ú©Ú†Ú¾ کہا اور لکھا گیا اور Ú©Ú†Ú¾ اقدامات بھی کیے گئے تاکہ اس Ú©Ùˆ ناکام بنایا جائے۔ اس طرØ* Ú©Û’ لوگوں میں سے ایک میاں بیوی Ù†Û’ اپنی نوکریاں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر ایک تØ*ریک Ú©ÛŒ بنیاد رکھی۔ انہوں Ù†Û’ اس تØ*ریک Ú©Û’ کام Ú©Ùˆ کرنے Ú©Û’ لیے ایک کتابچہ تیار کیا تاکہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں ان Ú©Ùˆ معلوم ہو کہ کیا کرنا ہے اور کس طرØ* کرنا ہے۔ اسی کتابچے Ú©Ùˆ سامنے رکھتے ہوئے میں Ù†Û’ اپنے ماØ*ول Ú©Û’ مطابق یہ کتابچہ تیار کیا ہے۔
یہاں مجھے اپنا وہ سوال یاد آگیا جو میں Ù†Û’ ایک عالم دین سے کیا تھا۔ میں ان Ù…Ø*ترم سے سوال کیا تھا کہ ہم کیوں پستی کا شکار ہیں جب کہ مغربی دنیا ترقی پر ہے؟ ان کا جواب تھا کہ جب ہمارے اندر ایسے لوگ پیدا ہوجائیں Ú¯Û’ کہ وہ امر بالمعروف Ùˆ نہی عن المنکر کرنا یعنی نیکی Ú©ÛŒ دعوت دینا اور برائی سے روکنا اپنی ذمہ داری سمجھیں Ú¯Û’ تو ہمارے بھی Ø*الات بدل جائیں Ú¯Û’Û” یہاں اتنا جان لیجیے کہ بعض علما Ú©Û’ نزدیک امر بالمعروف Ùˆ نہی عن المنکر توØ*ید، نماز، روزہ، Ø*ج اور زکوۃ Ú©Û’ بعد چھٹا رکن ہے۔ ضرور غور فرمائیں!
یہ کام کیوں ضروری ہے؟
جہاں دو پاکستانی جمع ہوتے ہیں پاکستان Ú©Û’ تباہ Ú©Ù† Ø*الات ان کا موضوع گفتگو ہوتا ہے۔ عموما یہ گفتگو مسائل Ú©Û’ تذکرے تک ہی Ù…Ø*دود رہتی ہے جو ایک اچھی بات ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ صرف مسائل Ú©ÛŒ نشاندہی کرنے Ú©Û’ بجائے ان Ú©Û’ Ø*Ù„ Ú©Û’ متعلق بھی سوچا جائے۔ مثال Ú©Û’ طورپر Ú©Ú†Ú¾ عرصے پہلے واٹس ایپ پر کسی سرکاری ہسپتا Ù„ Ú©Û’ ایک ڈاکٹر کا کلپ گردشی (وئرال) تھا جو مریض Ú©Û’ ساتھ آنے والوں کےساتھ انتہائی بدتمیزی سے پیش آرہا تھا۔ یہ تو صرف مسئلے کا ذکر ہوا۔ جب کہ ایسے موقع پر کرنے کا کام یہ تھا کہ اس ڈاکٹر Ú©Û’ ہسپتال کا سراغ لگا کر اس Ú©Û’ افسر Ú©Ùˆ خطوط، موبائل پیغامات یا اورکسی ذریعے سے ایسے بدتمیز ڈاکٹر Ú©Û’ خلاف سخت کاروائی بات کا مطالبہ کیا جاتا۔
Ø*الات خود بخود نہیں بدلیں Ú¯Û’ نہ ہی آسمان سے فرشتے Ø*الات Ú©ÛŒ اصلاØ* Ú©Û’ لیے نازل ہوں Ú¯Û’Û” یہ ملک جو بڑی قربانیوں Ú©Û’ بعد Ø*اصل کیا گیا ہے جو ہمارا وطن ہے، ہماری شناخت ہے یہی ہماری آنے والی نسلوں کا بھی وطن ہے۔ خدانخواستہ اگر ہم Ù†Û’ اپنے Ø*الات بدلنے Ú©ÛŒ کوشش نہ Ú©ÛŒ تو پستی Ú©ÛŒ جس Ø*د Ú©Ùˆ ہم پہنچ گئے ہیں اور اس Ú©Û’ جو نتائج سامنے آئیں Ú¯Û’ وہ کسی Ú©Ùˆ بھی پسند نہ آئیں Ú¯Û’Û”
اس کتابچے کا مقصد
پاکستان ایک مقصد Ú©Û’ لیے Ø*اصل کیا گیا تھا جس Ú©Û’ لیے لاکھوں لوگوں Ù†Û’ قربانیا Úº دیں۔ لاکھوں لوگ اپنا سب Ú©Ú†Ú¾ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر پاکستان میں آبسے۔ ان سب Ú©ÛŒ ایک ہی خواہش تھی کہ پاکستان ایک اسلامی فلاØ*ÛŒ مملکت بنے۔ لیکن ہوا کیا؟ ابتدا ہی سے موقع پرستوں Ù†Û’ اس ملک Ú©Ùˆ اپنی ملکیت بنا لیا اور تاØ*ال یہ جاری ہے اور بظاہر اس کا اختتام ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس ملک Ú©Ùˆ بہتر بنانے اور اس Ú©Ùˆ جس مقصد Ú©Û’ لیے ہمارے بڑوں Ù†Û’ قربانیاں دیں تھیں اس خواب Ú©Ùˆ شرمندہ تعبیر کرنے Ú©ÛŒ Ù„Ú¯Ù† ہر پاکستانی Ú©Ùˆ بے چین کرتی رہتی ہے۔ وہ اس مقصد Ú©Û’ لیے اپنا Ø*صہ بھی ڈالنا چاہتا ہے اور اپنے طور پر اس Ú©Û’ لیے کوششیں کرتا رہتا ہے۔ لیکن یہ بات واضØ* رہے کہ انفرادی طور پر کیے گئے کام اتنا اثر نہیں رکھتے جتنا اثر اجتماعی کوششوں کا ہوتا ہے۔ اور ہمارے رہنماؤں کا وہ طبقہ جس Ù†Û’ اس ملک Ú©Ùˆ برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ÛŒ انفرادی کوششوں کا کوئی اثر نہیں Ù„Û’ رہا۔ ضرورت اس بات Ú©ÛŒ ہے کہ انفرادی کوششوں Ú©Ùˆ اجتماعی Ø´Ú©Ù„ دی جائے اس طور پر کہ کوئی نئی جماعت بنانے Ú©ÛŒ بجائے ہر علاقے میں ہم خیال لوگوں Ú©Ùˆ ایک گروپ Ú©Û’ ذریعے سے جوڑ دیا جائے جو اپنے علاقے Ú©ÛŒ ترجیØ*ات Ú©Ùˆ سامنے رکھتے ہوئے ایک لائØ*ہ عمل اختیار کریں۔ اس کتابچے میں ایسا ایک لائØ*ہ عمل پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتابچہ ہر شخص Ú©Ùˆ اس بات Ú©ÛŒ ترغیب دیتا ہے کہ: ہر فرد ہے ملت Ú©Û’ مقدر کا ستارہ
یہ کتابچہ Ø*رف آخر نہیں بلکہ تالاب میں پہلا پتھر ہے۔ پڑھیے، غور کیجیے، اس Ú©Ùˆ استعمال کیجیے، اس میں اپنی ضرورت Ú©Û’ مطابق ترمیم کیجیے، اپنے تجربات Ú©ÛŒ روشنی میں اس Ú©Ùˆ بہتر بنائیے، اس Ú©Ùˆ عام کیجیے اور اپنی استطاعت Ú©Û’ مطابق کام میں Ù„Ú¯ جایئے۔
(جاری ہے)