مذہبی اختلافات Ú©ÛŒ شدت جس کا آج ہم شکار ہیں بہت سے لوگوں Ú©Ùˆ پریشان کرتی ہے۔ اس اختلاف Ú©Û’ نتیجے میں ہماری مذہبی ہم آہنگی پارہ پارہ ہے۔ بہت سے مخلص لوگوں Ú©Û’ ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان اختلافات میں Ø*Ù‚ Ú©Ùˆ کیسے تلاش کریں۔ یہ مضمون اس سلسلے میں ایک کوشش ہے۔ شاید کسی بے چین روØ* Ú©Ùˆ اس سے قرار آجائے۔
****************************************
یہ معلوم کرنا کہ Ø*Ù‚ کیا ہے بہت آسان ہے۔ ہمارے کلمے یعنی لاالہ الا اللہ Ù…Ø*مد رسول اللہ ï·º Ú©Û’ مفہوم پر غور کرنا چاہیے۔ کلمے Ú©Û’ تین جز ہیں اور ان سب Ú©Ùˆ الگ الگ سمجھنا چاہیے۔ یہ سب اجزا مل کر ایک معیار بنتے ہیں جن Ú©Û’ ذریعے انسان Ú©Ùˆ Ø*Ù‚ Ùˆ ناØ*Ù‚ کا فرق سمجھ Ø¢ جاتا ہے۔
کلمے کا پہلا جز لاالہ، دوسرا جز الا اللہ ہے۔ ان دونوں کا مجموعہ توØ*ید ہے۔ توØ*ید Ú©Ùˆ نہ صرف ماننا بلکہ اسی ترتیب سے جاننا یعنی سمجھنا بھی ضروری ہے جس Ú©ÛŒ طرف عام طور سے کوتاہی ہے۔ ان دونوں اجزا کا تعلق عقیدے سے ہے جس کا اظہار انسان Ú©Û’ اعمال سے ہونا ضروری ہے۔ کلمے کا آخری جز Ù…Ø*مد رسول اللہ ï·º ہے جو ہمارے لیے نمونہ ہیں اسلام Ú©Û’ Ø*قیقی مطلوب انسان کا۔
ایمان Ú©Û’ دو جز ہیں، ایک عقیدہ اور ایک عمل۔ علمائے کرام بتاتے ہیں کہ ایمان نام ہے زبان سے اقرار، قلب سے تصدیق اور اعضا Ú©Û’ ساتھ عمل کرنے کا۔ ایمان Ú©Û’ ان اجزا میں خرابی خود رائی سے آتی ہے۔ شریعت Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ بدعت کا نام دیا ہے۔ خود رائی Ú©ÛŒ ایک Ø´Ú©Ù„ تو وہ ہے جو بدعتی کرتے ہیں کہ عقیدے اور اعمال گھڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا کرنے میں Ø*رج کیا ہے۔ اپنے خود ساختہ عقیدے اور عمل Ú©Û’ لیے ان Ú©Û’ پاس بنیادی دلیل یہ ہے کہ شریعت میں ایسا کرنے Ú©ÛŒ منع نہیں آئی ہے لہذا ہم ایسا کر سکتے ہیں۔ یا دورازکار تاویلیں ہیں جن کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
خود رائی Ú©ÛŒ دوسری Ø´Ú©Ù„ یہ ہے کہ امت Ú©Û’ سواد اعظم (امت مسلمہ Ú©ÛŒ اکثریت) Ù†Û’ جن چیزوں پر اتفاق کرلیا ہے اور سینکڑوں سالوں سے ان پر عمل چلا Ø¢ رہا ہے، اس سے ہٹ کر اپنی رائے قائم کرنا ہے۔ جن چیزوں پر علمائے امت Ù†Û’ اتفاق کرلیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ فتوی اہل سنت Ùˆ الجماعت Ú©Û’ چار فقہا یا چار اماموں یعنی امام ابوØ*نیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام اØ*مد بن Ø*نبلؒ Ú©ÛŒ فقہ سے ہٹ کر نہیں دیا جائے گا۔ یہ کوئی قرآن Ùˆ Ø*دیث کا Ø*Ú©Ù… نہیں بلکہ ایک انتظامی فیصلہ ہے اور بالکل صØ*ÛŒØ* اور عقلی فیصلہ ہے۔ اس Ú©ÛŒ ایک مثال کسی ملک کا
right hand drive یا left hand drive
میں سے کسی ایک Ú©Ùˆ اختیار کرنا ہے جس Ú©Û’ پیچھے کوئی سائنس نہیں بلکہ عقل کا تقاضا ہے کہ دونوں میں کسی ایک ہی طریقے Ú©Ùˆ اختیار کیا جائے ورنہ ٹریفک کا نظام خلفشار کا شکار ہو جائے گا اور Ø*ادثات ہونے کا اندیشہ ہے۔ اب اگر کوئی شخص کسی ایسے ملک میں جہاں
right hand drive
گاڑیاں ہوتی ہیں اپنی ایک الگ رائے قائم کرے اور
left hand drive
گاڑی چلانا اپنا Ø*Ù‚ جانے اور اس پر اصرار کرے کہ اس میں Ø*رج کیا ہے، اور کسی عدالت میں اپنے اس Ø*Ù‚ Ú©Ùˆ Ø*اصل کرنے Ú©Û’ لیے مقدمہ دائر کرے تو اس شخص Ú©Ùˆ پاگل خانے کا راستہ دکھایا جائے گا اس لیے کہ فرد کا Ø*Ù‚ ایک چیز ہے اور ملک اور اس کا نظام اور انتظام ایک علیØ*دہ چیز ہے اور دونوں Ú©Û’ تقاضے الگ الگ ہیں۔ کوئی Ø*کومت ملکی نظام میں خلفشار برداشت نہیں کرسکتی اس لیے کہ ایسا کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور عام لوگوں Ú©Ùˆ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور Ø*کومت کا فرض بنتا ہے کہ ایسا کرنے والوں سے سختی سے نمٹے تاکہ عوام اپنی زندگی بغیر کسی پریشانی اور خلفشار Ú©Û’ اطمینان Ú©Û’ ساتھ بسر کر سکیں۔ اسی لیے جن ملکوں Ù†Û’ ڈرائیونگ کا جو رخ اختیار کرلیا ہے اب اس پر بØ*Ø« Ú©ÛŒ گنجائش بھی نہیں بنتی۔
علمائے کرام Ú©Ùˆ شریعت Ù†Û’ بااختیار مانا ہے۔ وہ شریعت Ú©ÛŒ نگاہ میں اولی الامر ہیں یعنی Ø*Ú©Ù… دینے Ú©Û’ مجاز ہیں اور اسلامی نظام میں Ø*کومت وقت ان Ú©Û’ Ø*Ú©Ù… Ú©Ùˆ نافذ کرنے Ú©ÛŒ ذمہ دار ہے۔ علمائے کرام ہی Ù†Û’ یہ Ø·Û’ کیا ہے کہ فتوی چار اماموں Ú©ÛŒ رائے پر ہی دیا جائے گا۔ شرعی امور میں چار فقہا Ú©ÛŒ پابندی اگر نہ ہوتی تو امت میں ہر صدی دو صدی Ú©Û’ بعد ایک فقیہ اٹھتا اور اپنی رائے سے امت میں خلفشار پیدا کرتا اور امت اسی کام میں Ù„Ú¯ÛŒ رہتی کہ کس Ú©ÛŒ رائے Ú©Ùˆ اختیار کیا جائے اور کس Ú©Ùˆ چھوڑا جائے۔
یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ شریعت کے ماخذ، یعنی قرآن و سنت، کا مفہوم و مراد اتنے جامد نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں ؛ یعنی ایسا نہیں کہ ان سے ایک ہی مفہوم نکلتا ہے بلکہ ان کی مراد سمجھنے میں اختلاف ہو سکتا ہے بلکہ ہوا ہے۔ شریعت کے ماخذ کسی مشین کے
operation manual
Ú©ÛŒ طرØ* نہیں ہیں جس میں اس مشین Ú©Ùˆ استعمال کرنے کا طریقہ نکتہ بنکتہ لکھا ہوتا ہے اور معمولی پڑھا شخص بھی اس مینوئل Ú©Ùˆ Ù¾Ú‘Ú¾ کر مشین Ú©Ùˆ استعمال کرسکتا ہے۔ جب شریعت Ú©Û’ ماخذ جامد نہیں ہیں تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ کوئی بھی ذہین فطین آدمی پورے اخلاص سے ان Ú©Ùˆ ایک نئے پیرائے میں بیان کرے اور لوگوں Ú©Ùˆ اس نئی تشریØ* Ú©ÛŒ طرف بلائے۔ یہ عام مسلمانوں Ú©Ùˆ پریشانی میں ڈالنا ہے جس Ú©Û’ نتیجے میں انتشار پیدا ہو گا۔ یہ علمائے کرام Ú©ÛŒ ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں Ú©Ùˆ فتنے سے بچائیں ان Ú©Û’ عقیدے اور اعمال Ú©ÛŒ Ø*فاظت فرمائیں تا کہ وہ دین پر اطمینان سے عمل کر سکیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امت میں اجتہاد Ú©ÛŒ راہ بند کردی گئی ہے۔ جس اجتہاد سے روکا جاتا ہے اس کا تعلق ان مسائل سے ہے جن پر طویل بØ*ثیں ہو Ú†Ú©ÛŒ ہیں اور فقہائے کرام Ù†Û’ امت Ú©ÛŒ رہنمائی کردی ہے۔ اور امت Ù†Û’ ان Ú©Ùˆ اختیار کر لیا ہے۔ مثال Ú©Û’ طور پر یہ بØ*Ø« کہ رفع یدین کرنا ہے یا نہیں کرنا اس پر بØ*Ø« Ú©ÛŒ ضرورت ہی نہیں ہے اس لیے کہ اس مسئلے پر بØ*Ø« تمام ہوچکی اور امت Ú©Ùˆ اس مسئلے میں رہنمائی دے دی گئی۔ یقینًا آج بھی قرآن Ùˆ Ø*دیث Ú©ÛŒ روشنی میں اس مسئلے پر یا اس طرØ* Ú©Û’ دوسرے مسائل پر بØ*Ø« Ú©ÛŒ جا سکتی ہے لیکن اس سے کیا Ø*اصل ہو گا؟ جو اس طرØ* Ú©Û’ مسائل میں بØ*Ø« کرتا ہے ایسا کرنے والا اپنا اور امت کا وقت ضائع کرنے Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ نہیں کررہا!
right hand driving اور left hand driving
والی مثال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ رہے نئے پیش آنے والے مسائل ان میں اجتہاد کی راہ کھلی ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں اس کی مثال غیرسودی بنکاری نظام کی کوشش ہے جو ہمارے زمانے کے بڑے بڑے علما کا ایک مشترکہ اجتہاد ہے۔
اس تمام تمہید کا Ø*اصل یہ ہے کہ Ø*Ù‚ Ú©ÛŒ راہ پہلا معیار توØ*ید خالص ہے، اور اس کا دوسرا معیار امت Ú©Û’ سواد اعظم سے وابستہ ہونا ہے کیونکہ اس میں خیر ہے۔ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ ارشاد فرمایا
عن ابن عمرؓ قال قال رسول اﷲ ï·º ان اﷲ لا یجمع امتی او قال امۃ Ù…Ø*مد علی ضلالۃ وید ï·² علی الجماعۃ ومن شذ شذ فی النار (سنن الترمذی)
ترجمہ Ø*ضرت ابن عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ï·º Ù†Û’ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی میری امت Ú©Ùˆ یا فرمایا کہ امت Ù…Ø*مدیہ Ú©Ùˆ گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ تعالی کا ہاتھ جماعت پر ہے اور جو آدمی جماعت سے الگ ہوا وہ دوزخ میں گرا