چاہے گھڑیاں آگے کرو یا پیچھے کرو، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرو یا گیس کا ناغہ کرو جب تک مسئلے کا مستقل حل تلاش نہیں کریں گے ایسی نو ٹنکیاں دیکھنے کو ملتی رہیں گی جس میں تازہ اضافہ حکومت کی طرف سے ایک بار پھر ہفتے میں دو چھٹیاں کرنے کا اعلان ہے جس کا مقصد توانائی کی بچت بتایا جا رہا ہے۔ توانائی کی بچت اچھی بات ہے ضرور کرنی چاہئے بلکہ سب کو کرنی چاہئے کہ یہ وقت کا تقاضہ اور ضرورت ہے لیکن کام کرنے کے لئے اگر حکومت اٹکل پچو طریقے استعمال کرے ، کسی سے کسی سطح پر مشاورت نہ کرے، صوبائی حکومتوں سے مشاورت تک نہ ہو ، دکانداروں اور تاجروں کو اعتماد میں نہ لے ان کی ضروریات اور کاروباری تقاضوں سے صرف نظر کرے تو ایسا حکومتی قدم عوام کی زبان میں صرف” ٹائم پاس“ ہی کہلائے گا۔ حکومت سرکاری اداروں ، شاپنگ سینٹروں اور شادی گھروں سے بجلی چھین کر ۔۔ یعنی ۔۔بجلی کی بچت۔۔ کراکے عوام کو بجلی دینا چاہتی ہے ۔ خبر یہ آئی ہے کہ وفاقی کابینہ نے اس اقدام کی منظوری دے دی ہے ۔۔۔ وفاقی کابینہ کا موقف معذرت کے ساتھ شاید کچھ غور و فکر کے بعد اس طرح کا ہوگا۔۔۔۔
” اس ملک میں جہاں بجلی کی کمی اہم مسئلہ ہے وہیں آبادی میں ہوش ربا اضافہ بھی کچھ کم مسئلہ نہیں۔۔ شاپنگ سینٹرز اور شادی ہال آبادی میں اضافے میں بالواسطہ کردار ادا کرتے ہیں ان کی سرگرمیوں پر حکومت کو تشویش ہونا لازمی ہے اب اگر حکومت نے ایکشن لیا ہے تو اس کی حمایت کرنی چاہئے اور ویسے بھی۔۔ جن سرکاری اداروں کو دو چھٹیاں دی گئی ہیں وہ باقی کے پانچ دن بھی کام نہیں کرتے لہٰذا معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں ہو گا۔ سر شام شاپنگ سینٹرز بند ہونے سے وہاں پولیس کی نفری کی ضرورت نہیں ہو گی اس نفری کو وزرا کی مزید حفاظت پر مامور کیا جا سکتا ہے۔ دو چھٹیوں سے سرکاری اداروں میں کرپشن میں بھی کمی آ ئے گی جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ یہ گڈ گورنیس کی طرف اہم قدم ہے جسے سراہنا جانا چاہئے۔ دو چھٹیوں کی وجہ سے بچے تعلیم پر زیادہ اور ٹی وی پر کم توجہ دیں گے جس سے تعلیمی معیار بہتر ہوگا ۔ دو چھٹیوں کی وجہ سے سڑکوں پر پارکنگ کم ہو گی جس سے ٹریفک کی روانی پر مثبت اثر ہو گا، لوگوں کا وقت اور ایندھن بچے گا اس کا معیشت پر خوشگوار اثر ہو گا۔ دس بجے شادی ہال بند ہونیسے لوگ گھر جا کر جلدی بستروں میں سونے چلے جائینگے تو یقینا انگریزی محاورے کے عین مطابق صبح جلدی اٹھینگے اس سے وہ خود بخود صحتمند، دولتمند اور عقلمند ہو جائیں گے ، قوم کو اور کیا چاہئے “۔
یہ تو شاید وفاقی کابینہ کا انداز فکر ہو گا لیکن زمینی حقائق تو کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ بازار اورشاپنگ سینٹرز چھ بجے بند کرنے کا فیصلہ کرتے وقت ان نوجوانوں کی یاد کیوں نہیں آئی جو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کیلئے دکانوں میں شام کو جز وقتی ملازمتیں کرتے ہیں یا کم آمدنی والے نجی اداروں کے ملازمین جو اپنے گھر والوں کی کفالت کے لئے شام کے وقت مصروف شاپنگ سینٹرز اور بازاروں میں چھوٹی دکانیں یا ٹھیلے لگاتے ہیں۔عوامی حکومت نے ان کے مفادات کے لئے کیا انتظام کیا؟ کیا یہ ہزاروں لاکھوں افراد چھ بجے شام گھر بیٹھ کر اپنا پیٹ پیٹیں یا اپنا سر پیٹیں؟؟ کیا حکومت نے ایسے اعداد و شمار حاصل کئے کہ کس وقت شاپنگ سینٹرز میں گاہگ زیادہ آتے ہیں اور کس وقت بزنس زیادہ ہوتا ہے؟ کیا حکومت کے پاس ایسے اعداد و شمار ہیں کہ کس سیکٹرز کے لوگ کس اوقات میں کتنی بجلی استعمال کرتے ہیں؟ ۔۔۔ یقینا نہیں ۔۔۔۔ تو ایسے اندھے اقدامات سے ملک کی، عوام کی اور معیشت کی کیا خدمت ہو گی؟۔۔۔ ایسے اقدامات سے کیا معیشت کا پہلے سے ہوا ستیاناس ، سوا ستیاناس نہیں ہوگا۔۔۔ ایسا کرکے معیشت ترقی کرے گی ؟ تاجروں اور تو اور دو صوبوں نے بھی اس فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور عمل درآمد سے معذرت کی ہے۔۔۔۔ نظر تو یہی آتا ہے کہ کچھ عرصے بعد ہفتے میں دو دن چھٹی کی ضرورت نہیں رہے گی کیونکہ اس کے بعد ہفتے میں سات دن کاروبار کی چھٹی ہی چھٹی رہے گی ۔