میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا

قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا
تھا جنہیں ز عم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے
میں کہ صØ*را نظر آتا تھا سمندر نکلا
میں نے اس جان بہاراں کو بہت یاد کیا
جب کوئی پھول مری شاخ ہنر پر نکلا
شہر والوں Ú©ÛŒ Ù…Ø*بت کا میں قائل ہوں مگر
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا