مرغیوں کے ڈربے سے قصاب ایک مرغی ذبح کرنے کے لئے نکلتا ہے تو باقی مرغیاں اس بات پر شکر ادا کرتی ہیں کہ انکی جان بچ گئی.
کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ایسی بے حسی کا آغاز کب ہوا ،دنیا بھر میں دہشتگردی کی لہر گیارہ سپتمبر کے واقعے کے بعد پھیلی،افغانوں کے جسموں کے پرخچے اڑتے رہے،ہماری ہی سرزمین سے جہاز اڑتے اور معصوم افغان شہریوں پر بم برسا کر فاتحانہ انداز میں واپس لوٹتے،صرف پہلے چار سالوں میں ستاون ہزار دفعه (57000 ) امریکی جہازوں نے ہمارے ملک سے پروازیں کی،ہم جو مسلمان کے خون کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ سمجھتے تھے،کہ ہمارے پیارے رسول نے یہی درس دیا تھا،لیکن ہم نے یہ سمجھ لیا کہ مسلمان تو وہ ہیں جو صرف پاکستان کی حدود میں رہتے ہیں،باقی تو زمین پر بسنے والی غلاظتیں،جن سے اس زمین کو پاک کرنا چاہیے،اس کے باوجود ہم دہشتگردی سے محفوظ تھے کہ ہمارا الله ہمیں مہلت دے رہا تھا،نہ کوئی خودکش حملہ اور نہ کوئی بس سے اتار کر قتل کرنا.
لیکن
جولائی 2007 میں ہم نے کئی راتوں تک ایک دلدوز اور ظالمانہ منظر اپنے ٹیلی وژن اسکرینوں پر ایک فلم کی طرح دیکھا،اور اپنے بچوں کو بستروں میں چھپائے چین کی نیند سوتے رہے.
یہ تھا لال مسجد اور جامہ حفضہ کا منظر
ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں میں گھرے بچے اور معصوم لڑکیاں
ہمیں صرف گولیوں کی گھن گرج سنائی دیتی رہی لیکن انکی چیخیں ہمارے کانوں تک نہ پہنچ پائیں.
انکی بھوک اور پیاس کے عالم میں ظالمانہ موت پر ہمارے تبصرے عجیب تھے .
یہ دیکھو اسلام آباد کے بیچوں بیچ ایک تماشا بنایا تھا ان لوگوں نے
یہ خارجی ہیں
واجب ال قتل ہیں
یہ پوری دنیا میں ہمارا امیج خراب کر رہے تھے
خس کم جہاں پاک
وہ دن اور آج کا دن،اس ملک کو چین نصیب نہیں ہو سکا
اس دن سے الله نے ہمارے دلوں میں نفرت اور تعصّب کو گہرا کر دیا
اس لئے کہ ہم نے دوسروں کے موت پر خوش ہونا سیکھ لیا تھا
( اوريا مقبول جان )
خود بھی پڑھیں اور دوستوں کو بھی شیئر کریں
Bookmarks