دریا اُسے بخشا تو صحرا مجھے دینا
تم اپنا مکاں جب کرو تقسیم تو یارو
گرتی ہوئی دیوار کا سایا مجھے دینا
جب وقت کی مرجھائی ہوئی شاخ سنبھالو
اس شاخ سے ٹوٹا ہوا لمحہ مجھے دینا
تم میرا بدن اوڑھ کے پھرتے رہو لیکن
ممکن ہو تو اک دن مرا چہرہ مجھے دینا
چھو جائے ہوا جس سے تو خوشبو تری آئے
جاتے ہوئے اک زخم تو ایسا مجھے دینا
شب بھر کی مسافت ہے گواہی کی طلبگار
اے صبح ِ سفر، اپنا ستارہ مجھے دینا
ایک درد کا میلہ کہ لگا ہے دل و جاں میں
ایک روح کی آواز کہ
Bookmarks